کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 16
شغار:
یہ عربی لفظ ہے جو شرعاً نکاحِ باطل کی ایک قسم کے لئے مستعمل ہے جس کی تعریف یہ ہے کہ ایک شخص اپنی متعلقہ عورت کا دوسرے شخص کو اس شرط پر نکا دے کہ وہ بھی اسے اپنی متعلقہ کا نکا دے۔۔۔ خواہ تقرر مہر ہو یا نہ۔ [1]
شغار کی لفظی تحقیق:
لغت میں اس کے اصلی معنی رفع یعنی اُٹھانے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے، شغر[2] الکلب اذا رفع رجلھا لیبول (کتنے نے پیشاب کے لئے ٹانگ اُٹھائی) اور جب باب مفاعلہ سے ہو تو رفع میں مشارکت ہو گی۔ شغار باب مفاعلہ کا مقصدر ہے جس کی تائیدابی ریحانہ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ لفظ یہ ہیں :۔
[1] امام ابن حزم رحمہ اللہ نے المحلی (۶۲۶:۹) میں یہی تعریف ذکر کی ہے اس کے بعد امام مالک سے نقل فرماتے ہیں:۔
لا یجوز ھذا النکاح ویفسخ دخل بھا اول م یدخل وکذلک لوقال: ان وجک ابنتی علی ان تزوجنی ابنتک بماۃ دینار فکلا خیر فی ذلک۔ کہ یہ نکاح ناجائز ہے اور فسخ ہو ا خواہ زوین جمع ہو چکے ہوں یا نہ اور یہی حکم ہے اس نکاح کا کہ کہ میں تجھے اپنی بیٹی کا کا دیتا ہوں اس شرط پر کہ تو مجھے سو دینار مہر سے اپنی بیٹی کا نکاح دے۔ اس میں کوئی خیر نہیں۔
امام ترمذی اپنی جامع میں فرماتے ہیں:
وقال بعض اھل العلم: نکاح الشغار مفسوخ ولا یحل وان جعل لھما صداق وھو قول الشافعی واحمد واسحاق کہ بعض اہل علم نے فرمایاَ: نکاح شغار فسخ ہوگا اور منعقد نہیں ہو گا۔ اگرچہ دونوں کے لئے مہر کا تقرر ہو اور یہ شافعی، احمد اور اسحاق کا مذہب ہے۔
[2] عن ابن درید: شغر الرجل امرالمرئۃ اذا رفع برجلیھا للنکاح (تاج العروس) قاموس میں ہے شغر، کمنع الرجل المرئۃ شغورا رفع رجلھا للنکاح۔ شغر۔ رفع کے معنی میں ہو تو منع باب سے استعمال ہوتا ہے اور خلوّ کے معنی میں ہو تو نصر سے۔ ۱۲