کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 14
کسی نے آگ بلند کرنے کا ذِکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
’’وہ مجوس کے لئے ہے۔‘‘
اِس قسم کی تجاویز کے بعد مجلس برخاست ہو گئی۔
بعد اذان عبد اللہ بن زید بن عبد ربہ الانصاری نے خواب دیکھا جس میں انہوں نے ایک شخص کے پاس ناقوس دیکھ کر اس سے بچنے کے متعلق دریافت کیا تاکہ وہ اس سے نماز کا اعلان کریں لیکن اس شخص نے اعلان کے لئے اس سے بہتر کلمات (اذان) سکھائی۔ جب یہ خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذِکر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لئے یہی اذان مقرر فرما دی اور اس طرح سے یہ اذان مشروع ہو گئی۔ اس حدیث کو امام احمد، ابو داؤد، ترمذی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔ یہی اذان حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی خواب میں سیکھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذِکر کیا۔
اب اگر مقصد صرف اعلان کرنا ہی ہو تو کیا نماز کے لئے بھی اذان کی بجائے دیگر اعلانات مثلاً ’’نماز تیار ہے۔‘‘ وغیرہ امر بالمعروف کے ضمن میں آسکتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ اعلان کے مقصد ہی سے شریعت نے یہ اذان مقرر کی ہے اور اہم موقعوں پر اس کا استعمال سکھایا ہے جو اعلان ہونے کے ساتھ عبادت بھی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائِ راشدین کے زمانہ میں نماز کے علاوہ سحری کے لئے اور خطبۂ جمعہ شروع ہونے سے قبل (جمعہ کی تیاری کے لئے) پہلی اذان کا ثبوت ملتا ہے۔ گویا صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سمجھا ہے کہ اگر کوئی اہم ضرورت ہو تو اعلان کے لئے الفاظ مسنونہ کو ہی استعمال کرنا چاہئے۔
مذکورہ بالا بیان میں ضمناً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا جمعہ کی پہلی اذان رائج کرنا اور پھر اس کے رواج عام پانے کی حقیقت بھی واضح ہو گئی۔ (وثبت الامر علی ذلک) اسی طریقہ پر عمل رائج ہو گیا۔ (بخاری)
تصحیح
ماہنامہ ’’محدث‘‘ جلد ۱، عدد ۳،۲ میں مضمون عشرہ ذی الحجہ قربانی کے فضائل و احکام، اشاعت ذی القعدہ، ذی الحجہ ۱۳۹۰ھ کے ص ۳۲ سطر ۹ میں تصحیح فرمالیں ۔ صحیح عبارت (سولہ باقی ماندہ حضرت علی کو دیئے کی بجائے) ۳۷ باقی ماندہ حضرت علی کو دیئے۔۔۔۔ ہے۔ (ادارہ)