کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 13
کیا اذان کی بجائے لاؤڈ سپیکر پر اعلان درست ہے؟
ادارۂ ’’محدِّث‘‘
اذان ’’تاذین‘‘ (باب تفعیل) کا حاصل مصدر ہے جس کے معنی ’’اعلان‘‘ کے ہیں ۔ نمازوں کے لئے جو اذان کہی جاتی ہے۔ اس سے بھی مقصد اعلان ہی ہے۔ لیکن شریعت میں جو کام دوسری عبادات کا وسیلہ ہیں وہ خود بھی عبادت ہیں جن پر ثواب ملتا ہے جیسا کہ وضو وغیرہ۔ اس لئے اگر اعلان کے لئے الفاظِ مسنونہ کی بجائے دوسرے طریقے اختیار کئے جائیں تو وہ عبادت نہ ہوں گے اور ان پر ثواب بھی نہیں ملے گا۔ اذان کے الفاظِ مسنونہ پر اجر و ثواب کی احادیث کتبِ حدیث میں بہت موجود ہیں لیکن طوالت سے بچنے کے لئے صرف بخاری کی ایک حدیث نقل کی جاتی ہے۔
عن ابی ھریرۃ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لو یعلم الناس ما فی الندائ والصف الوال ثم لم یجدوا الا ان یستھموا علیہ لاستہموا علیہ؛ الحدیث
رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) فرماتے ہیں کہ اگر لوگ اذان اور پہلی صف کا ثواب جانتے پھر وہ قرعہ اندازی کے بغیر اس کا موقعہ نہ پا سکتے تو وہ ضرور قرعہ اندازی سے ہی اس کا فیصلہ کرتے (کہ کون اذان کہے؟۔۔۔۔)
معلوم ہوا کہ اذان ک الفاظ مسنونہ چھوڑ کر دیگر اعلانات سے یہ فضیلتیں جاتی رہیں گی۔ نیز جب نماز کے اعلان کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی بات چیت ہوئی تو اس وقت صحابہ کی طرف سے مختلف تجاویز پیش ہوئی تھی۔ کسی نے ’’ناقوس‘‘ کا ذِکر کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
’’وہ نصارےٰ کے لئے ہے‘‘
کسی نے ’’بوق‘‘ کا ذِکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
’’وہ یہود کے لئے ہے‘‘