کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 12
رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ مسلمانوں کی نمازوں اور سحریوں پر امین ان کے مؤذن ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اذانِ نماز کی طرح اذانِ سحری کے لئے بھی مؤذن مقرر ہوتا ہے،[1] جیسا کہ عہدِ نبوی میں تھا اور یہی عمل مسنون ہے۔
اذان مسنونہ کی بجائے لاؤڈ سپیکر پر اعلان وغیرہ بدعت ہے:
نیل الاوطار / ۴۹:۲ میں فتح الباری شرح البخاری سے نقل کیا ہے کہ:۔
’’بعض حنفیہ نے اذانِ سحری کی یہ تاویل کی ہے کہ یہ (اذا سحری) حقیقی اذان نہ تھی جو الفاظ مقررہ سے متعارف ہے بلکہ وہ تذکیر اور منادی کرنا تھا کما یقع للناس الیوم (جیسا کہ آج کل مروج ہے۔)‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ:۔
’’یہ بدعت ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس اذان کے متعلق وارد حدیثیں باہم اس کے لفظ اذان کے ساتھ ہونے کو مضبوط کر رہی ہیں اور شرعی معنی (اذان کے الفاظِ مسنونہ) مراد لینا لغوی اور مجازی معنی سے مقدم ہے۔ نیز اگر اذانِ سحری الفاظِ مسنونہ کے سات نہ ہوتی تو سامعین پر اس کے اذانِ فجر ہونے کا شبہ نہ ہوتا (جس کے زائل کرنے کے لئے وضاحت فرمائی۔)
[1] امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : پہلی اذان نماز فجر کے لیے نہیں ہوا کرتی تھی بلکہ دوسری غرض سے تھی جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لیرجع قائمکم ویوقظ نائمکم سے بیان فرمایا ہے ۔ مرعاۃ المفاتیح 1: 444