کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 10
واشربوا حتی یؤذن ابن ام مکتوم قالت: ولم یکن بینھما الا ینزل ھذا ویصعد ھذا [1]
عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک مؤذن اذان کہہ کر اترتا تھا تو دوسرا اذان کے لئے چڑھ جاتا تھا۔
اِس حدیث میں دو اذانوں کا درمیانہ وقفہ (مبالغۃً) ذکر ہے۔ وقت کے اندازہ سے مقصد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم سحری دیر سے کھاتے تھے۔ یعنی پہلی اذان پر کھانا شروع کرتے جب کہ فوری طور پر دوسری اذانِ فجر ہو جاتی۔
۵۔ عن سمرۃ بن جندب قال: قال رسول اللّٰہ ( صلی اللّٰه علیہ وسلم ) لا یمنعکم من سحورکم اذان بلال ولا الفجر المستطیل ولکن الفجر المستطیر فی الافق [2]
رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ تم کو سحری کھانے سے بلال کی اذان اور صبح کاذب جس میں سفیدی بلندی کی طرف اُٹھنے والی ہوتی ہے۔۔۔۔ نہ روکے لیکن وہ صبح۔۔۔۔۔ جس میں سفیدی دائیں بائیں پھیلتی ہے۔۔۔۔ سحری کھانے سے مانع ہے۔
اس حدیث پر امام احمد رحمہ اللہ نے یوں عنوان لکھا ہے۔ باب وقت السحور واستحباب تاخیرہٖ۔ یعنی سحری کا وقت اور اس کو دیر سے کھانے کا استحباب۔ اور مؤطا میں امام مالک رحمہ اللہ نے ایک باب یوں باندھا ہے۔ قدر السحور من الندائ یعنی اذان کے ذریعہ سے سحری کا اندازہ۔
خبیب بن عبد الرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے میری پھوپھی۔۔۔۔ نے بیان کیا:۔
۶۔ کان بلال وابن ام مکتوم یؤذنان للنبی ( صلی اللّٰه علیہ وسلم ) فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ان بلا لا یؤذن بلیل، فکلوا واشربوا حتی یؤذن
[1] النسائی 1: 74
[2] مسند احمد ، مسلم