کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 96
3. جناب ڈاکٹر حمیری نے یقینا خدمت ِحدیث کے جذبہ سے الجزء المفقود من الجزء الأول من المصنف طبع کرایا۔ مگر کیا ان کے علم میں یہ نہیں کہ المصنف کے مطبوعہ نسخہ کی جلد خامس بھی ابتدا سے ناقص ہے جس کا اظہار مولانا حبیب الرحمن صاحب نے پہلی جلد کی ابتدا ہی میں کیاہے۔ اب جب کامل نسخہ دستیاب ہوا ہے تو خدمت ِسنت کاکیایہ تقاضا نہ تھا کہ اس حصہ کو بھی طبع کیاجاتا یا کم از کم اس کااظہار ہی کردیا جاتا کہ دوسرے نقص کاجواشارہ مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے کیا ہے، وہ غلط ہے اور وہاں کوئی نقص نہیں ۔ خدمت سنت کا یہ جذبہ آخر اس بارے میں خامو ش کیوں ہے؟
4. المصنف کے مطبوعہ نسخہ سے عیاں ہوتا ہے کہ امام عبدالرزاق نے المصنف میں باقاعدہ کتاب اور اس کے تحت ابواب مرتب کئے ہیں ۔ مثلاً پہلی جلد کی ابتدا میں کتاب الطھارۃنہیں ۔ اس کے بعد ابواب کا بظاہر تسلسل نہیں جو اس کے نقص کی دلیل ہے۔ اس کے بعد پہلی جلد ہی میں کتاب الحیض، کتاب الصلاۃ، یہ کتاب تیسری جلد تک مسلسل ہے اور اس کے تحت تمام متعلقہ ابواب ہیں ۔ اس کے بعد تیسری جلد ہی میں کتاب الجمعہ، کتاب صلاۃ العیدین، کتاب فضائل القرآن، کتاب الجنائز۔ اسی طرح چوتھی میں کتاب الزکوٰۃ، کتاب الصیام وغیرہ آخر کتاب تک۔ علامہ الکتانی نے بھی لکھا ہے:رتَّبہ علیٰ الکتب والأبواب
’’امام عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ نے اسے کتب اور ابواب پرمرتب کیا ہے۔‘‘ (الرسالۃ المستطرفۃ:ص۳۶)
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ الجزء المفقود کے نام سے اس نسخہ کا آغاز کتاب الإیمان سے نہیں ۔ ڈاکٹر حمیری نے وضاحت کردی ہے کہ موقعہ کی مناسبت سے ہم نے یہ اضافہ کیا ہے۔ (الجزء المفقود: ص۵۱) ،کتاب الطھارۃ بھی نہیں ، یہ عنوان بھی ڈاکٹر حمیری نے دیا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح مولانا اعظمی صاحب نے(کتاب الطھارۃ) کو قوسین میں ذکر کیا۔ یہ کیسا کامل نسخہ ہے کہ کتاب کے پورے اُسلوب کے برعکس اس میں ’کتاب‘ کانام ہی نہیں ۔ کیا ڈاکٹر حمیری اور ان کے ہم نوا بتاسکتے ہیں کہ ان کے کامل نسخہ میں ’کتاب‘نام کاکوئی عنوان ہی نہیں ۔ دیدہ باید