کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 95
أملک منھا الآن المجلدین الأوّل والثاني فقط وأترک الحکم للقاري الکریم وأھل الاختصاص وأضع بین أیدیھم الجزء المفقود‘‘
(ص۱۴،۱۵)
’’ہمارے سامنے جو نسخہ ہے، اس پرکوئی سماعات نہیں ۔ یہ نسخہ کامل ہے اورمجھے اس کی صرف جلد اوّل اور ثانی دستیاب ہوئی ہے۔ اس بارے میں فیصلہ قارئین کرام اور متخصصین پرچھوڑتا ہوں اور اس میں سے گمشدہ حصہ کو ان کے سامنے پیش کرتا ہوں ۔‘‘
سماعاتسماع کی جمع ہے ، جب ایک قلمی نسخہ اہل علم خود پڑھتے یا تلامذہ استاد پر اس کی قرا ء ت کرتے تو وہ اس پر لکھ دیتے تھے کہ یہ فلاں فلاں نے پڑھا یا سنا ہے۔مگر اس نسخہ کے بارے میں ڈاکٹر حمیری نے فرمایا ہے کہ اس پر کوئی سماعات نہیں ہیں ۔ پھر خود ان کا یہ فرمانا کہ ’’اس کے بارے میں فیصلہ قارئین کرام اور متخصصین پر چھوڑتا ہوں ۔‘‘ بجائے خود اس بات کا اظہارہے کہ اُنہیں بھی اس کے بارے کامل اعتمادنہیں کہ اس کی نسبت المصنف للإمام عبدالرزاقکی طرف درست ہے یا نہیں ؟
2. اس مخطوطہ کے ناسخ اسحق بن عبدالرحمن سلیمانی ہیں ۔ اس کا جز اوّل اُنہوں نے ۹/رمضان المبارک ۹۳۳ھ میں لکھا،جیسا کہ اس جز کے عکس سے معلوم ہوتاہے۔ یہ ناسخ کون ہیں ؛ ثقہ ہیں یانہیں ؟ اس کے بارے میں ڈاکٹر حمیری بھی خاموش ہیں ۔ اس کا ترجمہ وتوثیق بھی متداول کتب میں کہیں نظر نہیں آتی ہے۔ جب کہ ناسخ کے بارے میں یہ شرط بھی ہے کہ وہ ثقہ اور معروف الخط ہو، چنانچہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ
’’جس طرح یہ شرط ہے کہ کتاب کے بارے میں یہ اطمینان ہوناچاہئے کہ اس میں کوئی تغیر اور تبدیلی نہیں ہوئی، اگر اس کے بارے میں شک ہو تو اس سے روایت درست نہیں ، اس طرح یہ بھی شرط ہے کہ اس کا ناسخ ثقہ ہو، لیکن: إن لم یکن الکتاب بخط ثقۃ بلا خلاف (تدریب الراوی: ج۲/ ص۶۸ النوع ۲۶)
’’اگر کتاب ثقہ ناسخ سے نہ ہو تو بھی بلا اختلاف اس پر اعتماد درست نہیں ۔ ‘‘
یہی بات اس سے قبل النوع ۲۵ میں علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دوسرے اُسلوب میں فرمائی ہے۔ لہٰذا جب اس نسخہ کے ناسخ کاثقہ ہوناثابت نہیں ، نہ اس نے اس میں اپنے سماع کاذکر کیا اور نہ ہی کسی محدث سے اس نسخہ کے بارے میں اعتمادنقل کیاتو اس نسخہ کااعتبار کیونکر صحیح ہوسکتا ہے۔