کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 94
’’إن النسخ التی عثرنا علیھا أو التی أحرزناھا مصورۃ أومخطوطۃ __ کلھا ناقصۃ إلا نسخۃ مراد علي __ فإنھا کاملۃ إلا نقصا بسیطا في أولھا وفي خاتمۃ المجلد الخامس عن مجلدات الأصل فیما نرٰی‘‘ اب حال ہی میں المصنف کا ابتدائی حصہ ڈاکٹر عیسیٰ بن عبداللہ حمیری کی تحقیق سے ۲۰۰۵ء میں طبع ہواجس پرناشر کا کوئی نام نہیں ۔البتہ اسی نسخہ کا عکس بعد میں دسمبر ۲۰۰۵ء ہی میں مؤسسۃ الشرف لاہور کے تحت جناب محمد عبدالحکیم شرف قادری صاحب کے مقدمۃ الطبعۃ الثانیۃکے ساتھ طبع ہوا۔ اسی نسخہ کے بارے میں پہلے ماہنامہ ’نور الحبیب‘ بصیرپور میں جولائی ۲۰۰۴ء کی اشاعت میں اور اس کے بعد ماہنامہ ’اہلسنّت‘ گجرات میں اگست ۲۰۰۴ء کی اشاعت میں ،پھر ماہنامہ ’سوے حجاز‘ لاہور اکتوبر ۲۰۰۴ء کی اشاعت میں ’عالم اسلام کے لئے عظیم الشان خوشخبری‘ کے عنوان سے اشتہارات شائع ہوئے جن میں یہ خوشخبری دی گئی کہ حدیث ِنور اور حدیث ِعدمِ سایہ کی بازیافت ہوچکی جو المصنف عبدالرزاق کا ابتدائی حصہ ہے اورعنقریب منصہ شہود پر آنے والا ہے۔ بلکہ ’سوے حرم‘ نے تو اس حوالے سے سات احادیث شائع بھی کردیں جو اسی موضوع سے متعلق تھیں ۔ حدیث شریف کی خدمت بلا شبہ بڑی عظیم الشان سعادت ہے اور احادیث ِمبارکہ کے نایاب جواہرپاروں کو تلاش کرکے زیورِ طبع سے آراستہ کرنا دین کی بہت بڑی خدمت ہے۔ تاہم یہ بات بہرنوع ضروری ہے کہ پوری ژرف نگاہی اور دیانت داری سے یہ کھوج لگایا جائے کہ اس کتاب یا جز کا پایۂ استناد و انتساب کس حد تک درست ہے۔ محدثین کرام نے اس کیلئے جو اُصول و ضوابط مقرر کئے ہیں کیا یہ رسالہ اور جز اس میزان پر صحیح طور پر پورا اُترتا ہے یا نہیں ؟ ہم جب اسی حوالے سے المصنف کے اس حصہ کاجائزہ لیتے ہیں تو کئی اعتبار سے اسکا انتساب امام عبدالرزاق کی طرف درست ثابت نہیں ہوتا جس کی تفصیل حسب ِذیل ہے : 1. پہلی بنیادی اورقابل غور بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عیسیٰ حمیری نے اس نسخہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ولیس علی النسخۃ التی بین یدینا أیۃ سماعات وھي نسخۃ کاملۃ