کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 92
اُنہوں نے ان کے کفر اور قتل کا فتویٰ دیا۔ شیخ مصلح الدین نے وہاں سے بھاگ کر جان بچائی۔ (کشف الظنون: ج۲/ ص۱۷۹۵) علامہ شعرانی نے الیواقیت والجواہر ج۱/ ص۷ میں ذکر کیا ہے کہ شیخ ابن عربی کی فتوحات میں جو عبارتیں ظاہر شریعت سے معارض ہیں ، وہ سب دسیسہ کاری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے اس حقیقت سے سیدی ابوطاہر مغربی نے آگاہ کیا جو اس وقت مکہ مکرمہ میں مقیم تھے۔ اُنہوں نے مجھے فتوحات کا وہ نسخہ دکھایا جس کا مقابلہ انہوں نے قونیہ میں ابن عربی کے ہاتھ سے لکھے ہوئے نسخے سے کیا۔ اس نسخہ میں وہ فقرات نہیں تھے جومیرے نسخہ میں تھے اور میں نے ان فقروں میں توقف کیا تھا۔ اسی طرح اُنہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ملاحدہ اور زنادقہ نے امام احمد، علامہ مجدالدین فیروزآبادی اور امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف خصوصاً إحیاء العلوم میں تدسیس کی۔وہ لکھتے ہیں کہ باطنیہ کے ایک شخص نے ایک کتاب لکھ کر میری طرف منسوب کردی اور تین سال تک یہ کتاب میری زندگی میں متداول رہی۔ زنادقہ نے امام احمد کے مرض الموت کے ایام میں ایک کتاب لکھ کر پوشیدہ طور پر ان کے تکیے کے نیچے رکھ دی، اگر امام احمد کے تلامذہ ان کے عقائد سے بخوبی واقف نہ ہوتے تو جو کچھ اُنہوں نے تکیے کے نیچے پایا تھا، اس کی بنا پر لوگ بڑے فتنہ میں مبتلا ہوجاتے۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے رافض کے مکروفریب شمارکرتے ہوئے بتیسویں مکر میں ذکر کیا ہے کہ ان کے علما کی جماعت نے اہل سنت کی کتابوں ،بالخصوصتفسیر اور تاریخ کے موضوع پر جو اکثر علما اور طلبا کے ہاتھوں میں بھی نہ تھیں ،نیز بعض کتب ِاحادیث میں جومشہور نہ تھیں اوران کے نسخے بھی متعدد نہیں ملتے،میں نہایت جھوٹی باتیں بنا بنا کر جن سے شیعہ مذہب کو تقویت ملے اور سنیوں کے مذہب کوباطل قرار دیں ، شامل کی ہیں ۔ (تحفہ اثنا عشریہ ص۴۹، باب ثانی) امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ایک کتاب کتاب الصلاۃ کے نام سے منسوب ہے جو مصر سے شائع ہوئی ہے۔ حافظ ابن جوزی نے اسے امام صاحب کی تصنیف قرار دیا ہے مگر حافظ ذہبی صاف صاف فرماتے ہیں : ’’ھو موضوع علی الإمام‘‘ یہ امام صاحب پر افتراء ہے (السیر: ج۱۱/ ص۳۳۰) اسی طرح السیر (ج۱۱/ ص۷۸۷) میں بھی اُنہوں نے اس کی نسبت امام احمد کی طرف ’باطل‘ قرار دی ہے۔ نیز فرمایا ہے کہ الرد علی الجھمیۃ اور احمد بن جعفر