کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 91
اور عدمِ صحت متعین کی، جس کی تفصیل الکفایۃ،الجامع لأخلاق الراوي والسامع الإلماع في ضبط الروایۃ وتقیید السماع اور علوم الحدیث لابن الصلاح وغیرہ کتب میں دیکھی جاسکتی ہے۔
سند اورکتاب کی اس قدر حفاظت و صیانت کے باوصف وضاعین و کذابین اور متساہلین سے جوباتیں صادر ہوئیں وہ بڑی حیرت ناک اور عجیب ہیں ۔ شیوخ اور محدثین کی روایات میں اپنی روایت بنا کر داخل کردینا، کتابیں لکھ کر ثقہ محدثین اور اہل علم کی طرف منسوب کردینا، محدث کی کتاب میں اپنے لکھے ہوئے اجزا شامل کرکے باور کرانا کہ یہ بھی اس کا حصہ ہے، کذابین اور ضعفا کا مشغلہ رہا ہے جس کی تفصیل بڑی طویل ہے۔ اس حوالے سے شائقین سفیان بن وکیع، قیس بن ربیع الاسدی، عبداللہ بن صالح، حبیب بن ابی حبیب الورّاق اور خالد بن نجیح کے تراجم ملاحظہ فرمائیں ۔
یحییٰ بن حسان کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا ایک جماعت کے پاس ایک جز تھا جسے اس نے ابن لہیعہ سے سنا تھا۔ میں نے اسے دیکھا تو اس میں (حقیقۃً) ایک حدیث بھی ابن لہیعہ کی نہ تھی۔ میں پھر ابن لہیعہ سے ملا تو اُنہیں اس کی اطلاع دی۔ اُنہوں نے فرمایا:میں کیا کروں ، میرے پاس کتاب لے کر آتے ہیں تو کہتے ہیں :یہ آپ کی احادیث ہیں ( اُنہیں بیان کیجئے) تو میں اُنہیں بیان کردیتا ہوں ۔ حافظ ابن صلاح فرماتے ہیں : اسی نوعیت کا واقعہ ہمارے شیوخ میں ہوتا ہے۔ (مقدمہ ابن الصلاح: ص۱۸۷)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ امام معمر کا بھتیجا رافضی تھا۔ امام معمر اسے اپنی کتابیں پکڑا دیتے، اس نے ایک حدیث امام معمر کی کتاب میں داخل کردی (التہذیب: ج۱/ ص۱۲) وہ روایت امام معمر نے امام عبدالرزاق سے بیان کی، جسے اُنہوں نے بیان کیا۔ جس کی تفصیل التہذیب وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
حاجی خلیفہ نے مقدمۃ ابن اللیث کی شرح __جو شیخ مصلح الدین مصطفی بن زکریا المتوفی ۸۰۹ھ نے کی اور اس کانام التوضیح رکھا__ کے بارے میں علامہ شعرانی سے نقل کیا ہے کہ یہ شرح بڑی عظیم ہے ۔اس کے مؤلف مصر گئے تو بعض حاسدین نے ان کی کتاب میں ایک عبارت داخل کردی جس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی توہین ہوتی تھی، اسی بنا پر