کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 90
ایک لائبریری سے نقل کیا گیا ہے جو افغان جہاد کے دوران جنگ کی نذر ہوگئی۔ یہاں سے حمیری کے اپنے مخطوطہ کی اصل کے بارے میں دو مختلف موقفوں کا پتہ چلتا ہے جس سے اس مخطوطہ کی بنیاد ہی مشکوک ہوجاتی ہے۔ مخطوطہ کی فنی کیفیت پربھی بے شمار ایسے سوالات ہیں جن کے بعدیہ بات ثابت نہیں کی جاسکتی کہ یہ مخطوطہ اُس قدر قدیم ہے جتنا دعویٰ کیاجاتا ہے۔ شیخ زیاد تکلہ کے بقول یہ مخطوطہ ہندوستان کے کسی ماہر کاتب کا تحریر کردہ ہے جو حال میں ہی لکھوایا گیا ہے ۔ان کا موقف یہ ہے کہ ڈاکٹر حمیری اس سنگین جرم کا مرکزی کردار ہے جس نے نہ صرف اس کو پہلی بار شائع کیا بلکہ بے شمار باتوں کو عمداً چھپانے کی کوشش کی اوربعض مغالطے بھی دیے۔ ایسے ہی اس جرم میں مقدمہ لکھنے والا محمود سعید ممدوح برابر کا شریک ہے جس نے فن حدیث میں باذوق ہونے کے باوجود متعدد حقائق چھپائے، جبکہ اس کے اُستاذ عبد اللہ غماری کا اسی موضوع پر مستقل رسالہ ہے جس میں اُنہوں نے حدیث ِجابر کو غیر ثابت شدہ قرار دیا اور مصنف عبدالرزاق کی طرف اس حدیث کی نسبت کو جھوٹ بتایا ہے۔ مزید تفصیل کے شائقین ادارہ محدث سے رجوع کریں ، جہاں عرب علماء کے موقف بھی موجود ہیں ۔ اُردو زبان میں اس موضوع پر سب سے جامع تنقید ہدیۂ قارئین ہے۔ (حافظ حسن مدنی)
……………………………
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس اُمت کو جن خصائص اور اعزازات سے نوازا ہے، ان میں سے ایک عظیم الشان خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو خاتم النّبیین سید المرسلین حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو بالاسناد محفوظ کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس اُمت کے علاوہ پہلے جتنی اُمتیں ہوگزری ہیں ، کسی کو اپنے نبی کے آثار و ارشادات متصل سند کے ساتھ جمع کرنے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی۔ امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ
’’الإسناد من الدین ولولا الإسناد لقال من شاء ماشائ‘‘ (مقدمہ مسلم: ۱/۱۲)
’’اسناد‘‘ دین میں سے ہیں ، اگر سند نہ ہو تو ہرکوئی جو چاہے کہے۔‘‘
خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے الکفایۃ ص۳۹۳ میں ان کا یہ قول بھی نقل کیا ہے ’’جو شخص دینی اُمور کو بلا سند لیتا ہے، وہ اس شخص کی مانند ہے جو چھت پر بغیر سیڑھی کے چڑھتا ہے۔‘‘سند کا یہ اہتمام احادیث و آثار تک ہی محدود نہیں بلکہ لغت، شعر و ادب، تاریخ و رجال بھی بالاسناد بیان کئے جاتے ہیں ۔ سند کے اسی اہتمام کی بنا پر کتب ِمصنفہ کی روایت بھی قرناً بعد قرن بالاسناد ہوتی رہی،بلکہ کتاب کی ابتدا یا اس کے اختتام پر اس کی مسموعات کو بھی ناسخین نے سند کے اہتمام کی بنا پر محفوظ کیا اور کتاب نقل کرنے کے اُصول وضوابط مقرر کئے، نقل شدہ نسخہ کی صحت