کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 89
لیکن ظاہر ہے کہ پاکستان میں جاری یہ علمی مباحثہ دراصل دوبئی میں ہونے والے واقعہ کی بازگشت ہے جو ڈاکٹر مانع حمیری کی غیر ذمہ دارانہ حرکت کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ ڈاکٹر مانع حمیری دبئی کی وزارتِ اوقاف کا کئی سال منسٹر رہ چکا ہے اورقبوری، صوفی اور جہمی عقائدکا حامل ہے۔ اپنی وزارت کے دوران سنت اور عقیدہ سلف صالحین کو نقصان پہنچانے کے لئے سرگرم رہا اور ہمیشہ اہل بدعت کی جمعیت اس کے گرد جمع رہتی۔ بدعات اور فاسد عقائد کو پھیلانے کے لئے اس نے کئی کتب تصنیف کیں مثلاً البدعۃ أصل من أصول التشریع اور التأمل في حقیقۃ التوسل وغیرہ۔ بعد میں اسے اوقاف سے معزول کردیا گیاا ور ان دنوں یہ کلیۃ إمام مالک میں اُستاد ہے اور اپنے انہی عقائد کو فروغ دے رہا ہے۔ ڈاکٹر مانع حمیری کے گذشتہ برس اس کتاب کو شائع کرنے کے بعد اِمسال فروری ۲۰۰۶ء میں عالم عرب میں اس حرکت کا نوٹس لیا گیا، ریاض سے محمد زیاد بن عمر تُکلہ نے مصنف عبد الرزاق سے منسوب اس اضافہ کا عالمانہ ومحققانہ جائزہ لیا اور۱۷۳صفحات پر مشتمل تحقیقی مقالہ لکھا۔اس مقالہ میں اس جزئِ مفقود کے حصول کا سارا پس منظر، مکالمات اور مخطوطہ کی فنی حیثیت وغیرہ کے علاوہ ایک مستقل حصہ میں اسناد ومتن میں غلطیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ ریاض کے جامعہ ملک سعود کے پروفیسرسعد بن عبد اللہ بن عبد العزیز الحمیدنے ۸مارچ ۲۰۰۶ء کو اس بارے میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ہم یہ سمجھتے تھے کہ وضع حدیث کا فتنہ ختم ہوچکا ہے، لیکن اس حصہ کی اشاعت نے اس دور میں ہمیں دوبارہ فتنۂ وضع حدیث کی طرف متوجہ کردیا ہے۔ شناعت اور کذب بیانی کے لحاظ سے یہ واقعہ ڈنمارک میں اہانت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ سے کم نہیں ہے۔ جو آدمی بھی ان الفاظِ حدیث پر غور کرے گا تو وہ عجمی تراکیب ِالفاظ اور بے تکی اسانید ِحدیث جن کی کمزوری فن حدیث سے واقف اہل علم پر مخفی نہیں ، کی بنا پر اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک الزام ہی قرار دے گا۔‘‘ مزید برآں جن علما نے اس جزئِ مفقودکا مطالعہ کیا ہے، اُنہیں بھی اس کے موضوع اور بناوٹی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ، مثلاًشیخ خالد دریس، شیخ عمر حفیان، شیخ بندر شویقان، شیخ صالح عصیمی،شیخ احمد عاشور، شیخ عبدالقدوس محمد نذیر، شیخ سعد سعدان اور شیخ عبد الوہاب زید وغیرہ دلچسپ امر یہ ہے کہ مطبوعہ نسخہ میں تو ڈاکٹر مانع حمیری کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ مخطوطہ اسے ہندوستان سے محمد امین برکاتی قادری نے دیا ہے جو ۹۳۳ھ میں بغداد کے کاتب اسحق سلیمانی کا لکھا ہوا ہے۔ دوسری طرف اس کے ساتھ کام کرنے والے فن حدیث کے باذوق عالم شیخ کمدانی کی شہادت یہ ہے کہ ۲۰۰۱ء میں جب اُس نے یہ مخطوطہ شیخ کمدانی اور محمود سعید ممدوح کو دکھایا تو شیخ کمدانی نے مخطوطہ کی ظاہری کیفیت دیکھ کر ہی اس کے بناوٹی ہونے دعویٰ کر دیا اور مخطوطات کی تحقیق کے لئے دبئی کے مرکز جمعہ الماجد میں لے جانے کا عندیہ ظاہر کیا۔ یہ صورتحال دیکھ کر ڈاکٹر حمیری نے یہ مخطوطہ اسے دینے سے انکار کردیا ۔پھر شیخ کمدانی نے حمیری سے کہا کہ اس مخطوطہ کا اصل نسخہ تو ہندوستان سے منگوائے جس کا جواب اُسنے یہ دیا کہ یہ نسخہ سوویت یونین کی