کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 88
حدیث وسنت مولانا داؤد ارشد ، فیصل آباد
تحقیق و نظرثانی: مولانا ارشاد الحق اثری
مصنف عبدالرزاق کے الجزء المفقود کی ’دستیابی‘
۱۹۷۰ء میں جب پہلی بار حدیث کی عظیم کتاب مصنف عبد الرزاق ہندوستان سے مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے طبع کرائی تویہ صراحت بھی کی کہ اس کتاب کے آغاز کے چند صفحات اور پانچویں جلد کے بعض صفحات تاحال مل نہیں سکے۔ بعد میں کئی اہل علم ان ناقص صفحات کی تلاش میں رہے۔ برصغیر کے بریلوی مسلک کے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رسالت میں غلو کرتے ہوئے آپ کی ذاتِ گرامی کو ’نور‘ قرار دیتے ہیں اور یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس نور کی تخلیق ہر شے سے قبل ہوئی اور نور ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ بھی نہیں تھا۔ کچھ عرصہ قبل ہندوستان سے محمد امین برکاتی قادری نے یہ دعویٰ کیا کہ اسے مصنف عبدالرزاق کا یہ ناقص حصہ مل گیا ہے اور اس ناقص حصہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہونے پر حدیث ِجابربھی موجود ہے۔ بعد ازاں یہ مخطوطہ دوبئی پہنچایا گیا، جہاں ڈاکٹر عیسیٰ بن عبد اللہ بن محمد بن مانع حمیری نے اپنی تحقیق اور محمود سعید ممدوح کی تقدیم کے ساتھ ۲۰۰۵ء میں اسے ناشر کے تذکرہ کے بغیر ۱۰۵صفحات میں خوبصورت انداز میں شائع کردیا۔ ۲۰۰۴ء میں پاکستان کے بعض بریلوی دینی رسائل میں بھی ’احادیث ِنور‘ ملنے کی خوشخبری کا اعلان کیا گیا اور لاہور میں بھی اسی نسخہ کو دسمبر۲۰۰۵ء میں محمد عبدالحکیم شرف قادری نے دوسرے ایڈیشن کے طورپر شائع کردیا۔
دوبئی میں مصنف عبدالرزاق کا یہ مزعومہ حصہ شائع ہونے سے عالم عرب میں اور لاہور میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہونے سے پاکستان کے علمی حلقوں میں یہ بحث شروع ہوگئی کہ اس حصے کی حقیقت کیا ہے؟
پاکستان میں سب سے پہلے مولانا زبیر علی زئی نے اپریل ۲۰۰۶ء کے شمارہ ’الحدیث ‘میں اس گم شدہ حصے کو من گھڑت اور ناقابل اعتماد قرار دیتے ہوئے اپنے موقف پر متعدد علمی دلائل پیش کئے۔ بعد ازاں ماہنامہ ’نداء الاسلام‘ کے مئی کے شمارہ میں مولانا یحییٰ گوندلوی نے یہی موقف اپناتے ہوئے بعض دیگر دلائل کا اضافہ کیا، یہ مضمون مختصر طور پر ’تنظیم اہل حدیث‘ کے ۱۱/مئی کے شمارے میں بھی شائع ہوا۔ فیصل آباد کے مولانا داؤ د ارشد صاحب نے اسی موضوع پر ایک مختصر تحقیقی مضمون قلم بند کیا جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے محافظ ِحدیث و سنت مولانا ارشاد الحق اثری نے زیر نظر تفصیلی تجزیاتی مضمون تحریر کیا جو اس موضوع پر جامع ومفصل ترین اور خالص محدثانہ دلائل سے آراستہ ہے جس کے بعد اس جزئِ مفقود کی حقیقت نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔