کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 87
’’اپنے مردوں (یعنی قریب المرگ لوگوں ) کو لا إلہ ﷲ کی تلقین کرو۔‘‘
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ کوئی بھی قابل اعتماد حدیث ایسی نہیں ہے کہ جس کی بنا پر یہ کہا جاسکے کہ روزِ قیامت آدمی کو اس کی ماں کے نام سے بلایاجائے گا بلکہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آدمی کو اس کے باپ کے نام سے بلایاجائے گا۔
بعض علما نے ان روایات میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے اوروہ یوں کہ جس حدیث میں باپ کے نام سے بلائے جانے کا ذکر ہے ،وہ صحیح النسب آدمی کے بارے میں ہے اور جس میں ماں کے نام سے بلائے جانے کا ذکر ہے، وہ دوسرے آدمی کے بارے میں ہے۔ یا یہ کہ کچھ لوگوں کو ان کے باپ کے نام سے اور کچھ کو ان کی ماں کے نام سے بلایا جائے گا۔
اس جمع یا تطبیق کو مولاناشمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے علقمی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے۔[1] بعض نے ایک دوسرے طریقے سے تطبیق دی ہے، وہ یہ کہ خائن کو اس کے باپ کے نام سے اور غیر خائن کو اسکی ماں کے نام سے بلایا جائے گا اور اس تطبیق کو ابن علان نے شیخ زکریا سے نقل کیا ہے۔[2]
بعض نے حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ کو اس پر محمول کیا ہے کہ یہ اس آدمی کے بارے میں ہے جو ولدالزنا نہ ہو یا لعان [3]سے اس کی نفی نہ کی گئی ہو۔[4]
مگر یہ سب تکلّفات ہیں ، کیونکہ جمع اور تطبیق کی ضرورت اس وقت پیش آتی جب دونوں طرف کی روایات صحیح ہوتیں جبکہ حدیث ِابن عمر رضی اللہ عنہ کے خلاف جو روایات ہیں ، وہ انتہائی ضعیف قسم کی ہیں ۔ نیز اصل یہ ہے کہ آدمی کو اس کے باپ ہی کے نام سے پکارا جائے ۔ ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
والدعاء بالأباء أشد في التعریف وأبلغ في التمییز وبذلک نطق القرآن والسنۃ[5]’’باپوں کے نام سے بلانا پہچان میں زیادہ واضح اور تمیز میں زیادہ بلیغ ہے اور قرآن و سنت بھی اسی پر شاہد ہیں ۔‘‘