کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 86
حافظ ابن قیم الجوزیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو اس لئے بھی ردّ کیا ہے کہ یہ صحیح احادیث کے خلاف ہے،چنانچہ لکھتے ہیں : ولکن ھذا الحدیث متفق علی ضعفہ فلا تقوم بہ حجۃ فضلاً عن أن یعارض بہ ما ھو أصح منہ[1] ’’لیکن اس حدیث کے ضعف پر اتفاق ہے۔ چنانچہ اس سے حجت قائم نہیں ہوسکتی، چہ جائیکہ اس کو جو اس سے أصح (زیادہ صحیح) ہے ،کے مقابلے میں لایا جائے۔‘‘ ما ھو أصح سے ان کی مراد حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حدیث ابو الدرداء رضی اللہ عنہ ہے جو اس مضمون کے شروع میں گزرچکی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کی تردید حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو فرماتے: (( استغفروا لأخیکم واسئلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل)) [2] ’’اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو اور اس کے لئے ثابت قدمی کا سوال کرو، کیونکہ اب اس سے سوال کیا جارہا ہے ۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس موقع پر میت کے لئے استغفار اور ثابت قدمی کا سوال کیا جائے گا، نہ کہ اس کو تلقین کی جائے گی۔ ابن علان نے اس حدیث کو حدیث ابی امامہ کے شواہد میں ذکر کیا ہے۔[3] اور یہ کس قدر عجیب بات ہے، کیونکہ استغفار ، ثابت قدمی اور تلقین میں بہت فرق ہے۔ اور صحیح احادیث سے جو تلقین ثابت ہے وہ قریب الموت آدمی کے بارے میں ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لقنوا موتاکم لا إلـٰہ إلا ﷲ)) [4]