کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 84
نوٹ: مزید برآں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری (۱۰/۵۶۳) میں ابن بطال کا یہ قول ’’في ھذا الحدیث رد لقول من زعم أنہم لا یدعون یوم القیامۃ إلا بأمہاتہم سترا علی آبائہم[1] ذکر کرنے کے بعد کہا ہے: قلت: ھو حدیث أخرجہ الطبراني من حدیث ابن عباس وسندہ ضعیف جدا وأخرج ابن عدي من حدیث أنس مثلہ،وقال: منکر أوردہ في ترجمۃ إسحاق بن إبراھیم الطبري میں کہتا ہوں کہ حدیث ابن عباس میں بھی بأسمائھم ہے، بأمہاتہم نہیں ۔ اسی طرح ان کا حدیث أنس مثلہ کہنا بھی درست نہیں کیونکہ اس حدیث میں بأمہاتہم ہے۔ یہی وہم علامہ ابوطیب شمس الحق عظیم آبادی کو ہوا ہے کہ اُنہوں نے حدیث ابن عباس کو لفظ بأمہاتہم سے ذکر کیا ہے۔ نیز اُنہیں ایک غلطی یہ بھی لگی ہے کہ اُنہوں نے کہا ہے کہ حدیث ِابن عباس کو طبرانی نے بہ سند ضعیف روایت کیا ہے، جیسا کہ ابن قیم نے حاشیۃ السنن میں کہا ہے جبکہ ابن قیم نے حدیث ابن عباس کا ذکر تک نہیں کیا بلکہ اُنہوں نے حدیث ِابوامامہ کا ذکر کیا ہے جوعنقریب آرہی ہے۔[2] 2. حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ :اس حدیث کا ابھی حدیث انس رضی اللہ عنہ کے ضمن میں ذکر ہوا اور یہ بھی بیان ہواکہ دو وجوہ کی بنا پر اس سے حجت لینا درست نہیں ۔ 3. حدیث ابوامامہ رضی اللہ عنہ :یہ ایک طویل حدیث ہے جس میں میت کو دفن کردینے کے بعد اسے تلقین کرنے کا ذکر ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں : إذا مات أحد من إخوانکم فسویتم التراب علی قبرہ فلیقم أحدکم علی رأس قبرہ ثم لیقل: یا فلان بن فلانۃ فإنہ یسمعہ ولا یجیب ثم یقول: یا فلان بن فلانۃ ۔۔۔ فقال رجل: یارسول ﷲ فإن لم یعرف أمہ