کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 81
’’منفرد تفسیروں میں سے ایک تفسیر یہ ہے کہ إمام اُ مّ کی جمع ہے اور لوگوں کو قیامت کے دن ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا، باپوں کے بدلے ماؤں کے نام سے بلانے میں حکمت یہ ہے: (اس کے بعد اُنہوں نے انہی تین حکمتوں کاذکر کیا ہے جن کو بغوی وغیرہ نے ذکر کیا ہے)‘‘
زمخشری کی اس انوکھی تفسیرکا ردّ امام ناصر الدین احمد بن منیرمالکی نے ان الفاظ سے کیا ہے :
ولقد استبدع بدعا لفظا ومعنا فإن جمع الأم المعروف:الأمہات أما رعایۃ عیسی علیہ السلام بذکر أمہات الخلائق لیذکر بأمہ فیستدعی أن خلق عیسی من غیر أب غمیزۃ في منصبہ وذلک عکس الحقیقۃ، فإن خلقہ من غیر أب کان لہ آیۃ و شرفا في حقہ۔ وﷲ أعلم[1]
’’زمخشری نے لفظی اور معنوی بدعات ایجاد کی ہیں کیونکہ ’امّ ‘کی معروف جمع ’اُمہات‘ ہے۔ رہا عیسیٰ علیہ السلام کی رعایت کی خاطر لوگوں کا ان کی ماؤں کے ساتھ ذکر تاکہ حضرت عیسیٰ کی ماں کا ذکر کیاجائے۔ تو یہ امر اس بات کا متقاضی ہے کہ عیسیٰ کی بغیر باپ کے خلقت سے ان کے منصب پر حرف آتا ہے جبکہ یہ بات حقیقت کے برعکس ہے کیونکہ ان کابغیر باپ کے پیدا کیا جانا ان کے لئے معجزہ اور ان کے حق میں شرف ہے۔ واللہ اعلم!‘‘
بعض دیگر علما نے مذکورہ تمام حکمتوں کا ردّ کیا ہے اور بعض نے اس ردّ کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔[2]
نوٹ: استاد محترم نے’فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ‘ (ص۲۴۲) میں ’اُمہات ‘[3]کی تفسیر کو قراء تِ شاذہ قرار دیا ہے مگر مجھے کوئی ایسی قراء ت نہیں ملی۔٭ واللہ اعلم بالصواب
واضح رہے کہ ’امام‘ کی معتبر مفسرین نے تین چار تفسیریں ذکر کی ہیں مگر ان میں سے سب سے معتبرتفسیر یہ ہے کہ ’امام‘ سے مراد آدمی کا اعمال نامہ ہے، کیونکہ یوم ندعوا کل أناس