کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 80
جن علما نے یہ کہاہے کہ قیامت کے دن آدمی کو اس کی ماں کے نام سے بلایاجائے گا، باپ کے نام سے نہیں ، ان کے دلائل دو نوعیت کے ہیں :
پہلی دلیل
قرآنِ کریم میں ہے : ﴿ یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ أُنَاسٍ بِـإِمَامِہِمْ ﴾ (الاسراء : ۷۱)
’’قیامت کے روز ہم لوگوں کو ان کے اماموں کے ساتھ بلائیں گے۔‘‘
محمد بن کعب نے بـإمامہم کی تفسیر میں کہا ہے : قیل: یعني بأمہاتہم
’’کہا گیا ہے یعنی ان کی ماؤں کے ناموں سے۔‘‘
ان کے اس قول کوامام بغوی رحمۃ اللہ علیہ اور امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے اورکہا ہے کہ اس میں تین حکمتیں ہیں :
1. عیسیٰ علیہ السلام کی وجہ سے
2. حسن اور حسین رضی اللہ عنہ کے شرف کی بنا پر
3. اولادِ زنا کی عدم رسوائی کی وجہ سے۔[1]
مگر محمد بن کعب کا یہ قول بے بنیاد ہے، اسی لئے علامہ شنقیطی نے ان کے اس قول کاردّ ان الفاظ میں کیا ہے :
قول باطل بلاشک وقد ثبت في الصحیح من حدیث ابن عمر[2]
’’یہ قول بلاشک باطل ہے کیونکہ صحیح (بخاری) میں ابن عمر کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی صفحہ اول پر مذکور حدیث کاتذکرہ کیا ہے۔
اسی طرح زمخشری نے بھی ’امام ‘کی تفسیر ’اُمہات‘ سے کی ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں :
ومن بدع التفسیر أن الإمام جمع أمّ وأن الناس یدعون یوم القیامۃ بأمہاتہم وأن الحکمۃ في الدعاء بالأمہات دون الآبائ۔۔۔[3]