کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 72
اس شہر میں ہم نے یہودی سکول Gross Schecter Academy، عیسائی سکول St. Ignatius Elementary School اور الاحسان اسلامک سکول کے دورے کئے۔ مختلف مذاہب کے ۱۰ رہنماؤں اور یونیورسٹی پروفیسرز کے مابین ۳ گھنٹے طویل مکالمہ میں شرکت کی۔ ایک یہودی گھرانے کی ضیافت میں شرکت اور ’راک اینڈ رول میوزیم‘ کے دورے کے علاوہ آخری روز فلسطینیوں اور یہودیوں کو قریب لانے کے لئے ’اسماعیل اینڈ اسحق ‘ نامی تنظیم کے صدر سمیر محمد اور جنرل سیکرٹری سے ملاقات ہوئی۔سمیر ۵ برس کی عمر میں فلسطین کے مشرقی کنارے سے امریکہ منتقل ہوئے اور وہ مختلف تنظیموں ، مثلاً عرب امیرکن کمیونٹی سنٹرفار اکنامک اینڈ سوشل سروسز،کلیو لینڈ عرب امیرکن مڈل ایسٹ آرگنائزیشن، البیرہ فلسطین ایسوسی ایشن وغیرہ کے چیئرمین یا بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبر رہ چکے ہیں ۔ ان سکولوں کے معائنے کے دوران ایک حیران کن حقیقت کا انکشاف ہوا۔ دنیا کی سپر قوت کا تعلیمی نظام کچھ سالوں سے شدید شکست وریخت کا شکار ہے اور امریکی عوام اور حکومت اس سلسلے میں شدید پریشان ہیں ۔ وہاں کے اخبارات میں صدر بش کی اپنے عوام کو یہ تنبیہ بھی پڑھنے کو ملی کہ اگر ہم نے اپنے تعلیمی رویے درست نہ کئے تو پھر مستقبل کا امریکہ چین اورانڈیا کے قابل نوجوانوں کی جنت ہوگااور امریکیوں کو ان کی ماتحتی میں کام کرنا پڑے گا۔ پبلک سکولوں میں معیارِ تعلیم اور اخلاقیات کے شدید انحطاط کی وجہ سے بہتر مالی استعداد رکھنے والا ہرشخص اپنے بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں داخلہ دلوانے کو ترجیح دیتا ہے۔ امریکہ میں مذہبی / خانقاہی سکولوں کی تعداد ۳۰ ہزار کے لگ بھگ ہے اور اخلاقی انحطاط مثلاً شراب نوشی اور اختلاط کو کنٹرول کرنے کیلئے بھی لوگ اپنے بچوں کو ان سکولوں میں داخل کرواتے ہیں ۔ برصغیر کے برعکس یہاں اکثر مذہبی ادارے ابتدائی تعلیمی مرحلہ کے ہیں ۔ ہرریاست نے تعلیم کا ایک لازمی خاکہ تیار کررکھا ہے اور جو بھی اپنے سکول میں ان لازمی مضامین کی تدریس کراتا ہے، اس کے بچے بعد میں قومی نظام تعلیم میں شریک ہوجاتے ہیں ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے پاکستان میں دارِ ارقم سکولز، الدعوۃ سکولز یا دیگر اسلامی سکول جن کے معیارِ تعلیم پر تو بحث ہوسکتی ہے، لیکن اُنہیں قومی نظام تعلیم میں داخل ہونے کے بارے میں کوئی مشکل درپیش