کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 71
نامور مسلم قائدین کو نائن الیون کے نتیجے میں امریکہ چھوڑنے کے احکامات بھی مل چکے ہیں گو کہ ان میں صر ف ایک پر دہشت گردی کاالزام لگایا گیا اور باقی کو دیگر انتظامی وجوہات کی بنا پر یہ حکم دیا گیا۔ بہرحال ہمیں یہاں ایک ایسے شہر کو دیکھنے کا موقع ملا جو محض ۱۰۰ سال کی تاریخ میں عروج سے ہم کنار ہونے کے بعدآہستہ آہستہ موت کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہاں کے باشندے بڑی تیزی سے نقل مکانی کر رہے ہیں لیکن شہری انتظامیہ مختلف عوامل کے ذریعے اس شہر کو زندہ رکھنے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔یہ سرگوشیاں کرتا ایک خاموش شہر ہے، جس میں رونق اورزندگی کی چہل پہل کم کم نظر آتی ہے۔ کلیو لینڈ میں ہمارا قیام ۸ تا ۱۲/ اپریل تک تھا، دورے کا مرکزی خیال ’بین المذہبی مکالمہ‘ تھا۔ اس شہر کے سب سے بڑے عیسائی چرچ میں ہمیں اتوار کی عبادت دیکھنے کا موقع ملا، یہودیت کے فروغ کے لئے قائم Maltz Museum کی زیارت بھی کی جہاں قدیم دستاویزات اور کھدائی کے آثار وغیرہ کے ذریعے ارضِ مقدس میں اسرائیل کو بسانے کا تصور اُجاگرکیا گیا تھا۔یہاں یہود اور عیسائیوں میں اشتراکِ عمل بڑھانے کے لئے بھی کئی طریقوں سے کوشش کی گئی تھی، مثلاً ارضِ فلسطین میں چرچوں کی تعداد کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ وہاں عیسائیت خوب پھل پھول رہی ہے اور ارض مقدس کو آزاد کروانے میں عیسائیت کا بھی مفاد ہے۔ اس میوزیم کی زیارت کے دوران یہ خیال پیدا ہوا کہ کاش کوئی مالدار مسلمان یا اسلامی حکومت ایسے شہر میں جہاں اسلام ایک اجنبی دین ہے، ایک ایسا ہی میوزیم قائم کرے جس میں قرآنی آیات کے سائنسی انکشافات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ پیشین گوئیوں کو جدید آلات کے ذریعے مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہو۔ اس مجوزہ میوزیم میں علومِ اسلامیہ کی برتری اور مسلمانوں کی فنی و سائنسی خدمات کو نمایاں کیا جائے۔ اسلام اور عیسائیت ویہودیت میں مشترکہ باتوں کو نمایاں کرکے اسلام کو آخری دین بتا کر اس کی طرف دعوت دی جائے۔ اگر یہودی غلبہ والے شہر میں ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو نیویارک، شکاگو یا بوسٹن وغیرہ میں جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد بستی ہے، ایسا میوزیم بنا یا جاسکتا ہے۔