کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 67
مرتب کرنیوالے رہنما خطوط کی ہے، ہم اسے اپنے ملکی مقاصد کیلئے ضروری سمجھتے ہیں ۔ محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں پاکستان کے قانونِ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور متاثرین کے ناقابل یقین اعداد و شمار پیش کئے گئے تھے۔ یہاں محکمہ کی ترجمان سے میں نے یہ اعتراض کیا کہ جب یہ قانون تمام انبیا کرام کے بارے میں ہے اور اس سے محض مسلمانوں کی بجائے تمام مذاہب کی مقدس شخصیات کا احترام یقینی بنایا گیا ہے، تو پھر اس قانون کو محض اقلیات کے خلاف کیوں باور کیا جاتا ہے؟ علاوہ ازیں بعض یورپی ممالک میں یہودیوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ مثلاً ہولوکاسٹ کی تفصیلات پر بھی قانون موجود ہے تو پھر پاکستان میں مذاہب کے احترام پر مبنی ایسا قانون انسانی حقوق کے منافی کیوں ہے؟ محکمہ خارجہ کی ترجمان کا موقف یہ تھا کہ مسئلہ دراصل قانون میں خرابی کا نہیں بلکہ طریق کار کا ہے۔ عملی طورپر اس سے اقلیات زیادہ متاثر ہوتی ہیں ۔ پاکستان میں توہین رسالت کے خلاف حکومت کی طرف قانونی طریق کار تبدیل کئے جانے کے باوجود ہمیں ابھی تک اس کے طریق کار سے اتفاق نہیں ہے، بالخصوص جب اسے ایک ڈپٹی کمشنر کے دائرۂ اختیار میں دے دیا گیا ہے تو یہ تبدیلی درست نہیں ، کیونکہ غیر معمولی مصروفیت کی وجہ سے اس سے متاثرین کا رابطہ کرنا ہی بہت مشکل ہے۔ ٭ جہاں تک باقی پانچ غیر سرکاری اداروں کا تعلق ہے جو مذہبی اُمور پر کام کررہے ہیں تو ان کے بارے میں میرا تاثر یہ تھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ریاست کا ادارہ بہت منظم اور طاقتور ہوچکا ہے۔ ریاست کا یہ ادارہ بظاہر تو مذہب کو اپنے محدود دائرے میں آزادی کا حق دیتا ہے لیکن درحقیقت دونوں طرف نظریات کی جنگ ہے اور نظریات کا بہت بڑا سرچشمہ خود مذہب ہے۔ اس لئے مذہب کو کنٹرول کرنے اور محدود رکھنے کے لئے ریاست نے متعدد ادارے تشکیل دے رکھے ہیں ۔ مثلاً سٹیٹ اور چرچ کے اساسی نظریے پر قائم واشنگٹن کا ادارہ نہ صرف متعلقہ موضوع پر نظریاتی مباحثہ میں حصہ لیتا ہے بلکہ اس حوالے سے کسی بے قاعدگی کو بھی نظرمیں رکھتا ہے۔ ایسے ہی جملہ مذاہب کے لئے حکومت کی طرف سے مکالمہ کی میز سجا کر ان کے مسائل کو پرائیویٹ طورپر ہی حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس مقصد کے لئے