کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 66
امریکی فوجوں کے لئے دعائیں اور اراکین کی ذاتی مذہبی دلچسپیوں کی تکمیل کے گرد گھومتی ہیں ۔ باقی دونوں سرکاری اداروں میں ہر ہر ملک کے بارے میں رپورٹیں زیر بحث رہیں ۔ راقم نے دورانِ ملاقات ان رپورٹوں کو ان ممالک پر ’قراردادِ جرم‘ سے تعبیر کرتے ہوئے ذمہ داران سے ان رپورٹوں کی تیاری کے مراحل پر روشنی ڈالنے کو کہا اور ساتھ ہی یہ اضافہ بھی کیا کہ آپ کی تیارکردہ رپورٹیں اور پاکستان میں بعض امریکہ نواز NGOsکی رپورٹوں کا گذشتہ برسوں میں جب ہم نے تقابل کیا تو ان میں حیران کن حد تک مماثلت نظر آئی۔ آپ ان رپورٹوں کی تیاری کے لئے ان لوگوں پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے ذاتی ذرائع کو استعمال کریں ، تب ہی ان میں ہمارے ممالک کے حقیقی منظر کشی ممکن ہوسکے گی۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم یہ رپورٹیں انگریزی اخبارات کی مدد سے یا ایسے اداروں کے توسط سے تیار کرتے ہیں جو ہم سے اس سلسلے میں رابطہ کرتے رہتے ہیں ۔ راقم نے اس طریقہ کار کو ناکافی قرار دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ انگریزی اخبارات پاکستان کی اصل صورتحال کی نشاندہی کی بجائے طبقہ اشرافیہ یا مخصوص ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں ،اردو اخبارات کوکافی حد تک پاکستانی عوام کا حقیقی ترجمان قرار دیا جاسکتا ہے، آپ کو قومی حقائق سے آگاہی کے لئے اُردو مضامین کے تراجم کرانے چاہئیں ۔ نیز پاکستان کے تمام طبقوں کا آپ سے اعتماد پر مبنی تعلق نہیں ہے، اس لئے اکثر وبیشتر لوگ آپ سے رابطہ ہی نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض اقلیات یا مخصوص مفادات کے حامل محض چند لوگ اپنے مقاصد کے لئے امریکی حکومت کی بے جا تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ ’عالمی ادارہ برائے مذہبی آزادی‘ میں بھی چونکہ آغاز کی تعارفی گفتگو کے بعد دیگر شرکا رپورٹوں پر اپنا اپنا تبصرہ پیش کررہے تھے،اس لئے میں نے یہ تبصرہ کیا کہ مختلف ممالک کے بارے میں ان رپورٹوں کی حیثیت حقائق کی بجائے،ان ہدایتوں کی ہے جوامریکی حکومت ان سے توقع کرتی ہے، یہ کردار تو اقوامِ متحدہ کا ہونا چاہئے۔ امریکی حکومت کا یہ ادارہ متعلقہ ممالک یا اقوامِ متحدہ کی ذمہ داریوں میں دخل اندازی کا مرتکب ہورہا ہے۔ اسکا جواب ترجمان نے یہ دیا کہ ہماری رپورٹوں کی حیثیت ہماری ملکی پالیسیوں اور اپنی حکومت کے لئے سفارشات
[1] محدث، نومبر ۲۰۰۵ء، ص۶۱ [2] طلوع اسلام، مئی ۱۹۵۳ء، ص۴۷ [3] طلوع اسلام، اپریل ۱۹۷۹ء، ص۶۱