کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 63
کرتا ہے اور اس میں اداروں یا حکومتی نمائندگی کی بجائے افراد / شخصیات کو منتخب /مخاطب کیا جاتا ہے۔ پروگرام کا مرکزی خیال اور بنیادی پلان مشہور امریکی صنعت کار راک فیلرکاتجویز کردہ ہے۔ تعارفی مجلس میں اس پروگرام کی حکمت یہ بیان کی گئی کہ ہمیں معلوم ہے کہ دنیا امریکہ سے نفرت کرتی ہے لیکن ہمیں آپس میں مفاہمت کو فروغ دینا چاہئے۔ پاکستان کے ایک اہم پالیسی ساز ادارے کے ڈائریکٹر کے بقول اس نوعیت کے پروگراموں کے مقاصد عموماً درج ذیل ہوتے ہیں :
1. امریکیوں کا اپنے ملک میں رویہ ان کے اُس عالمی کردار سے بالکل مختلف ہے جو عالمی سطح پر امریکہ کا ایک تعارف بن چکا ہے۔ اس لئے امریکہ کے اس عالمی کردار کی شدت کو اس کے داخلی کردار کے تعارف کے ذریعے کم کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں شرکت کرنے والوں کے امریکہ مخالف جذبات میں نمایاں کمی آجاتی ہے۔
2. شرکا پر نفسیاتی انداز میں اس طرح اثر انداز ہوا جاتا ہے کہ وہ امریکہ کی قوت اور معاشرتی وسیاسی نظم واستقامت سے مرعوب ہوجائیں اور اس بنا پر امریکہ مخالف خیالات ذہن سے نکال دیں کہ وہ ایسی بلند چوٹی ہے جسے سر نہیں کیا جاسکتا۔
3. اس مقصد کے لئے بالخصوص نوجوانوں کو منتخب کیا جاتا ہے کیونکہ اوّل تو اُنہیں متاثر کرنا، ان کی ذہنیت کو بدلنا پختہ عمر لوگوں کی بہ نسبت زیادہ آسان ہوتا ہے، نیز اگر ان کی ذہنیت تبدیلی کی طرف مائل ہوجائے تو وہ اپنی عمر کے باقی حصے میں اس تبدیل شدہ ذہنیت سے امریکہ کو زیادہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں ۔ یادرہے کہ پروگرام میں شرکت کے لئے ۲۵ تا ۵۵ سال کی عمر کے افراد کا ہی انتخاب کیا جاتا ہے۔
4. اس دورے کے دوران شرکا کی ذہنیت کے تجزیے سے امریکہ کو اپنی آئندہ عالمی سیاست کے مہرے تلاش کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پروگرام میں شرکت کرنے والے متعدد لوگ بعد میں امریکہ نوازی کا کردار ادا کرتے ہیں ۔
ہمارے پروگرام کے سات شرکاء تھے:بھارت سے ٹائمز آف انڈیا کے مذہبی تجزیہ نگار محمد وجیہ الدین، مغربی بنگال میں جامعہ اسلامیہ مدینۃ العلوم، بردوان کے مہتمم قاضی محمد یاسین،
[1] محدث، نومبر۲۰۰۵ء، ص ۵۵
[2] محدث، نومبر ۲۰۰۵ء، ص۵۷
[3] طلوع اسلام، نومبر ۲۰۰۵ء، ص۲۷