کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 139
ہے،کیونکہ یہ حدیث کے الفاظ ’’إن عیسی لا أب لہ‘‘ سے ان کا اپنا فہم اور اجتہاد ہے۔
’صاحب الجامع‘ ابو عیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی
علامہ شاہ عبدالعزیز بستان المحدثین میں فرماتے ہیں کہ
’’نوادر الأصول کے مصنف حکیم ترمذی، جامع ا لترمذی کے مصنف ابوعیسیٰ ترمذی کے سوا اور شخصیت ہیں کیونکہ جامع ترمذی کا شمار صحاحِ ستہ میں ہوتا ہے جب کہ نوادر الأصول کی اکثر حدیثیں ضعیف اور غیر معتبر ہیں اور اکثر جاہل لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ حکیم ترمذی ہی ابوعیسیٰ ترمذی ہیں ، اس لئے وہ ضعیف حدیثوں کو بھی ابوعیسیٰ ترمذی کی طرف یہ سمجھتے ہوئے منسوب کردیتے ہیں کہ یہ حدیثیں جامع ترمذی کی ہیں ۔‘‘
امر واقع یہ ہے کہ ترمذی نام کے تین امام گزرے ہیں :
1. ابو عیسیٰ ترمذی، صاحب الجامع: جو سب سے زیادہ مشہور ہیں اور مطلق ترمذی کا لفظ سنتے ہی فوراً ذہن ان کی طرف جاتا ہے ۔
2. ابوالحسن احمد بن حسن جو ترمذی الکبیر کے نام سے مشہور ہیں ۔چنانچہ حافظ ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں فرماتے ہیں کہ
’’ ترمذی کبیرسے مراد حافظ ابوالحسن احمدبن حسن بن جنیدب ترمذی ہیں جو ایک بلند پایہ محدث تھے۔ اُنہوں نے یعلی بن عبید، ابوالنصر ، عبداللہ بن موسیٰ اور سعید بن ابی مریم وغیرہ سے حدیث کا سماع کیا ہے اوران سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے احادیث روایت کرنے کے علاوہ علل حدیث، رجال اور علم فقہ میں بھی استفادہ کیا ہے اور ان کا تعلق احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے اصحاب سے بھی ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے اپنی صحیح کی کتاب المغازی میں احمد بن حنبل کے واسطے سے روایت کی ہے اور یہ ۲۴۰ھ کے کچھ بعد فوت ہوئے ہیں ۔‘‘
3. حکیم ترمذی :ان سے مراد ابوعبداللہ محمدبن علی بن حسن بن بشر ہیں جو حکیم ترمذی کے نام سے مشہور ہوئے۔ بڑے زاہد، حافظ، مؤذن اور کئی کتب کے مصنف ہیں ۔ اُنہوں نے اپنے باپ اور قتیبہ بن سعید، حسن بن عمر بن شفیق، صالح بن عبداللہ ترمذی وغیرہ سے حدیث روایت کی ہے اور ان سے روایت کرنے والے یحییٰ بن منصور القاضی اور حسن بن علی اور علماء نیشا پور ہیں ۔ نیشاپور میں ۲۸۵ھ میں آئے،کیونکہ انہیں کتاب ختم الولایۃ اور کتاب علل الشریعۃ لکھنے کے سبب ترمذسے نکال دیا گیا تھا۔ ان کا خیال تھاکہ اولیا کے لئے خاتمہ بالخیر لازمی ہے اور وہ ولایت کو نبوت پر فضیلت دیتے تھے۔