کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 136
سے قرآنِ مجید کی تلاوت ، تہجد اور شب زندہ داری ان کی زندگی کا جزوِ لا ینفک تھے ۔ سنت کے سچے دل سے خدمت گزار اور اس پر عامل تھے۔ حسد، بغض، چغلی اور غیبت کو کبیرہ اور قبیح ترین گناہ سمجھتے تھے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں خوفِ الٰہی کا یہ عالم تھا کہ بکثرت روتے رہتے جس کی وجہ سے آنکھوں کی بینائی ضائع ہو گئی۔ اگرچہ بعض کہتے ہیں کہ وہ پیدائشی نابینا تھے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ وہ آخری عمر میں بکثرت رونے سے نابینا ہوگئے تھے ۔جیسا کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے عمر بن علک رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ
’’امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد خراسان میں علم و حفظ اور زہد و تقویٰ میں ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ جیسا کوئی نہیں تھا ۔وہ اس قدر روتے کہ آنکھوں کی بصارت سے محروم ہوگئے اور سال ہا سال اسی طرح نابینا ہی زندگی گزار دی۔‘‘
امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا مغالطہ اور اس کا ردّ
یہ بات باعث ِتعجب ہے کہ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ سے واقف نہیں تھے اور ان کے بارے میں یہ کہہ دیا کہ وہ مجہول ہیں ۔محقق علماے حدیث نے ان کی اس بات کی تردید کی ہے چنانچہ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں :
’’ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ صاحب الجامع، بلند پایہ حافظ، ثقہ اور مجمع علیہ شخصیت ہیں ۔ ان کے متعلق ابومحمد ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے قول کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا،جو اُنہوں نے کتاب الاتصال کے باب الفرائض میں بیان کیا ہے کہ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ مجہول ہیں ۔ حیرت ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کو ان کی جامع اور کتاب العلل کے ہوتے ہوئے بھی نہ پہچان سکے ۔‘‘
اور سیر أعلام النبلاء میں فرماتے ہیں کہ ’’امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابن حبان، سنن ابی داؤد اور سنن نسائی جیسی اہم اور بڑی بڑی کتابوں کاذکر کیا ہے وہاں سنن ابن ماجہ اور جامع ترمذی کا تذکرہ نہیں کیا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان دونوں کتابوں کو اپنی زندگی میں دیکھ نہیں سکے کیونکہ یہ اندلس میں ان کی وفات کے بعد داخل ہوئیں ۔
تہذیب التہذیب میں الخلیلي کا قول ہے کہ
’’ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ثقہ اور متفق علیہ شخصیت ہیں ۔ باقی رہاان کے بارے میں ابومحمد ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا قول تو اُنہوں نے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات سے عدمِ واقفیت کا اعتراف کیا ہے چنانچہ اپنی کتاب الاتصال کے باب الفرائض میں لکھتے ہیں کہ ’’محمدبن عیسیٰ بن سورۃ مجہول ہیں ۔‘‘