کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 135
میں موجود ہے کہ ’’اُنہوں نے ایک شیخ سے دو جز کے بقدر حدیثیں سنیں اور قلم بند کر لیں ،لیکن ابھی تک شیخ کو پڑھ کر سنانے اوران کی تصحیح کر نے کاموقع نہ ملا تھا۔ ایک روز حسن اتفاق سے مکہ مکرمہ کے راستے میں ان سے ملاقات ہوگئی توامام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقع کو غنیمت جان کر شیخ سے قراء ۃ کی درخواست کی،اُنہوں نے منظور کرلی اور کہا :اجزا نکال لو ،میں پڑھتا ہوں تم مقابلہ کرتے جاؤ۔ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اجزا تلاش کئے مگر وہ ساتھ نہ تھے۔ بہت گھبرائے لیکن اس وقت ان کی سمجھ میں اس کے سوا اور کچھ نہ آیا کہ سادہ کاغذ کے دو اجزا ہاتھ میں لئے اور متوجہ ہو کر بیٹھ گئے۔ شیخ نے قراء ت شروع کی اور اتفاق سے ان کی نظر کاغذ پر پڑ گئی تودیکھا کہ شاگرد سادہ اور سفید کاغذپر نظریں گھما رہا ہے ۔ شیخ غصہ میں آگئے اور فرمایا :مجھ سے مذاق کرتے ہو؟ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اصل واقعہ بیان کیا اور کہا: اگرچہ وہ اجزا میرے پاس نہیں ہیں لیکن لکھے ہوؤں سے زیادہ محفوظ ہیں ۔ شیخ نے فرمایا :اچھا پھرسناؤ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے وہ تمام حدیثیں فرفر سنا دیں ۔ شیخ کو خیال ہوا کہ شاید ان کو پہلے سے یاد تھیں ، اس لئے فر فر سنا گئے ہیں ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ آپ ان کے علاوہ کوئی دوسری احادیث پڑھ کر سنائیں اور امتحان لے لیں ۔ شیخ نے اپنی خاص چالیس حدیثیں اور پڑھیں ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے وہ تمام احادیث بھی من وعن دہرا دیں ۔تب شیخ کو ان کے قوتِ حافظہ کا یقین ہوگیا اور نہایت تعجب سے فرمایا : ’’ میں نے (قوتِ حافظہ )میں تجھ سے بڑھ کر کوئی نہیں دیکھا۔ ‘‘ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ میزان الاعتدال میں فرماتے ہیں کہ ’’ وہ بہت بڑے حافظ، ثقہ اور مسلمہ امام ہیں ۔ ‘‘ اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کتاب الثقات میں فرماتے ہیں : ’’کان أبوعیسیٰ ممّن جمع وصنّف وحفظ وذکر‘‘ ’’امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے (احادیث)کو جمع کیا ، اُنہیں لکھا ، اپنے ذہن میں محفوظ کیا اور آگے بیان کیا ۔‘‘ زہد و تقویٰ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ زہد و ورع اور خوف خدا میں یکتاے روز گار تھے ۔ جیسا کہ محدثین کرام کی یہ امتیازی شان ہے کہ وہ بلند اخلاق سے آراستہ اور بہترین صفات کے حامل تھے۔ باقاعدگی