کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 134
ابومصعب زہری سے ا خذ کی جب کہ امام شافعی کا مذہب ِقدیم حسن بن محمد زعفرانی اور قولِ جدید ربیع بن سلیمان سے حاصل کیا، اسی طرح امام احمد بن حنبل ،اسحق بن راہویہ اور دیگر بہت سے علما کے اقوال ومذاہب کو خوب سلیقہ سے اپنی جامع میں سمو دیا۔آپ کی جامع آپ کے تفقہ فی الحدیث اور مذاہب پر اطلاع کی بہت بڑی دلیل ہے ۔ہر باب میں علما کے اقوال پیش کر کے ان میں سے ایک کو ترجیح دیتے ہیں جس سے قاری کا یہ تاثر بنتا ہے کہ آپ فقہ و حدیث کے بہت بڑے امام تھے۔
امام ترمذی کے مشہورا ساتذہ
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ طلب ِعلم میں محنت،حدیث وفقہ میں علمی رسوخ اور دیگر گونا گوں صفات کی وجہ سے مرجع خلائق بن گئے تھے۔ متلاشیانِ علم اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے ان کے حلقہ درس میں شامل ہونے لگے ۔ ان کے تلامذہ میں خراسان و ترکستان کے علاوہ دنیا ے اسلام کے مختلف گوشوں کے آدمی ملتے ہیں ۔ چند ممتاز تلامذہ کے نام یہ ہیں :
ابوحامد احمد بن عبداللہ مروزی، ہیثم بن کلیب شاشی، ابوالعباس محمد بن احمد بن محبوب محبوبی مروزی، احمد بن یوسف نسفی، ابوالحارث اسد بن حمدویہ، داؤد بن نصر بن سہیل بزدوی، عبد بن محمد بن محمود نسفی، محمود بن نمیر، محمد بن محمود، محمد بن مکی بن نوح، ابوجعفر محمد بن سفیان بن النضر، محمد بن منذر بن سعید ہروی، ابوبکر احمد بن اسمٰعیل بن عامر ثمرقندی، احمد بن علی مقری، حماد بن شاکر الورّاق، علی بن نوح نسفی مقری اورحسین بن یوسف غریزی رحمہم اللہ وغیرہ
حافظہ
اللہ تعالیٰ جب کسی سے کوئی کام لینا چاہتا ہے تو اس کے اسباب بھی خود پیدا فرمادیتا ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کو جس طرح اکابر محدثین سے استفادہ کا موقع ملا، ویسے ہی انہیں خداداد قوتِ حافظہ بھی عطا کی گئی۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب التہذیب میں نقل کیا ہے کہ ابوسعید ادریسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
’’ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ان ائمہ میں سے ایک ہیں جو علم حدیث میں مرجع الخلائق تھے، آپ نے اپنی مشہور کتاب جامع، تاریخ اور علل کو ایک پختہ ماہر، عالم کی طرح تصنیف کیا ہے۔ ‘‘
آپ کی قوتِ حافظہ ضربُ المثل تھی۔ ان کا ایک حیرت انگیز واقعہ رجال کی سب کتابوں