کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 133
’’ الترمذي تلمیذ البخاری وخریجہ وعنہ أخذ الحدیث وتفقہ بہ ومرَّن بین یدیہ وسألہ واستفاد بہ‘‘ اور امام ترمذی نے اپنی کتاب العلل میں خود بھی اعتراف کیا ہے کہ ’’میں نے اپنی جامع میں علل وتاریخ کا زیادہ حصہ محمد بن اسمٰعیل سے حاصل کیا ہے اور میں نے عراق اور خراسان میں امام بخاری سے زیادہ علل،تاریخ اور اسانید کا علم رکھنے والا کوئی اور نہیں پایا۔‘‘ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا اعزاز اگرچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ امام بخاری کے قابل فخر اور مایہ ناز تلامذہ میں سے ہیں ، تاہم اُنہیں یہ شرف بھی حاصل ہے کہ خود استاد نے ان سے حدیث کا سماع کیا اور ان کے علم وذکاوت کا اعتراف کرتے ہوئے اُنہیں اپنے شیوخ اور اساتذہ میں شامل کرلیا۔ چنانچہ ’ابواب التفسیر‘ سورۃ الحشر کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان﴿مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِیْنَۃٍ أَوْتَرَکْتُمُوْھَا قَائِمَۃً عَلَی أُصُوْلِہَا…﴾ کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ’’ لینۃ سے مراد نخلۃ (یعنی کھجور) ہے۔ ‘‘ کو ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’محمد بن اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث مجھ سے سنی ہے۔‘‘ اسی طرح امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ أبواب المناقب میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت کہ یا علي لا یحل لأحد أن یجنب في ھذا المسجد غیري وغیرک کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مناقب میں ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’مجھ سے یہ حدیث محمد بن اسمٰعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سنی ہے۔‘‘ خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اپنے لائق شاگرد پر ناز تھا، چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے اس امر کااعتراف ان الفاظ میں کیا تھا : ’’انتفعتُ بک أکثر مما انتفعتَ بي‘‘ ’’جوعلمی استفادہ میں نے آپ سے کیا ہے، وہ آپ مجھ سے نہیں کر پائے۔‘‘ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی فقاہت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ایک محدث ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے فقیہ بھی تھے اور مذاہب ِعلما سے بھی خوب واقف تھے، آپ نے فقہ الحدیث امام بخاری جیسے حاذق محدث سے حاصل کی اور فقہ اہل الرائے اس وقت کے مشہور فقیہ الرازی سے اور فقہ مالکی اسحق بن موسی انصاری اور