کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 125
اُسے اپنے من مانے مفہوم کے ساتھ پیش کیا جاسکے۔ اسے مکتب ِطلوع اسلام کی کرامت سمجھئے یاپرویز صاحب کا فیضانِ نظر کہ کذب و خیانت کی روش اپنانے میں مولوی ازہر عباس صاحب پرویز صاحب کے طابق النعل بالنعل پیروکار ہیں ، وہ بھی اپنے پیشوا و مقتدا کی طرح علما کے موقف کو علما کے اپنے الفاظ میں پیش کرنے کی بجائے اپنے خود ساختہ الفاظ میں پیش کرنے کے عادی ہیں ، جیسا کہ مئی ۲۰۰۵ء کے شمارۂ طلوع اسلام میں اُنہوں نے نسخ کی حقیقت کو کسی عالم دین کے اصل الفاظ میں درج کرنے کی بجائے تغیر شدہ مفہوم کے ساتھ اپنے من گھڑت الفاظ میں پیش کیا ہے۔ متعلقین طلوع اسلام کی ایسی ہی حرکات کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ عرض کیا تھاکہ ’’وابستگانِ طلوعِ اسلام اور اس کے کارپردازوں کے اخلاق و کردار سے یہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے مخالف کے موقف کو بلاکم و کاست صحت و دیانتداری کے ساتھ، اپنے رسالہ میں شائع کریں گے، جیساکہ ماضی کا تجربہ اس پر شاہد ہے۔‘‘[1] اب اگر طلوعِ اسلام ، بلا کم و کاست، ہمارا موقف اپنے ہاں شائع کرنے سے گریزاں ہے اور اپنے یکطرفہ پراپیگنڈے کے ذریعہ سے اپنے قارئین کو یہی باور کروانا چاہتا ہے کہ علماے کرام قرآنِ کریم کے علاوہ وحی کے اثبات سے عاجز و گریزاں رہے ہیں اور اپنی لاف زنی کے ذریعہ اپنے قارئین کے قلوب و اذہان میں یہی تاثر پیدا کرنا چاہتا ہے کہ ’’ہمارا ملا، طلوعِ اسلام میں پیش کردہ دعوت کا جواب دلائل و براہین سے تو دے نہیں سکتا (اس لئے کہ وہ قرآن کی دعوت ہے، اور ملا بیچارہ قرآنی دعوت سے محروم ہوتا ہے)‘‘ [2] نیز یہ کہ جو روشِ بد خود طلوع اسلام نے اپنا رکھی ہے، اُسے اپنے مخالفین کے سرتھوپ کر، اپنے قارئین کو یہ یقین دلایا جائے کہ ’’ہمارے خلاف پراپیگنڈہ کرنے والوں کی کیفیت جدا ہے۔ وہ یہ نہیں کرتے کہ جوکچھ طلوعِ اسلام کہتا ہے، اُسے اُس کے الفاظ میں اس کے قارئین یا سامعین کے سامنے پیش کرکے، اس پرقرآن کریم کی روشنی میں تنقید کریں ۔ وہ کرتے یہ ہیں کہ اپنی طرف سے ایک غلط بات وضع کرتے ہیں اور اسے طلوعِ اسلام کی طرف منسوب کرکے گالیاں دینی شروع کردیتے ہیں ۔‘‘[3]