کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 124
یقین دہانی موجود ہوگی، ع لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد۔ ایسی کسی یقین دہانی کاذکر تک نہ تھا بلکہ ۹نکات پیش کرکے، یہ مطالبہ داغا گیاکہ ان کا جواب دیا جائے۔ یہ بالکل وہی تکنیک ہے جو ڈاکٹر عبدالودود صاحب نے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ سے دورانِ مراسلت اختیار کررکھی تھی کہ مولانا محترم کے دلائل کو نظر انداز کرکے بحث کو بے جا طول دیتے ہوئے ہر خط میں کچھ نئے نکات سامنے لاکر یہ مطالبہ کیا کرتے تھے کہ ان کا جواب دیا جائے۔
بندہ ٔ خدا ! اگر آپ واقعی ’احقاقِ حق اور ابطالِ باطل‘ ہی کا مقصد پیش نظر رکھتے ہیں تو اس کا تقاضا بھی یہی ہے (اور فائدہ بھی اسی صورت میں ہے) کہ فریقین کاموقف بلاکم و کاست ’طلوعِ اسلام‘ اور ’محدث‘ دونوں میں شائع ہو تاکہ دونوں طرف کے قارئین ، جانبین کے موقف کو پڑھ کر کوئی حتمی رائے قائم کرسکیں ۔اسی بلاکم و کاست’ طلوع اسلام‘ میں ہمارے موقف کی اشاعت کی یقین دہانی ہمیں مطلوب ہے۔ کارپردازانِ طلوعِ اسلام کا ایسی یقین دہانی سے گریز یہ ظاہر کرتا ہے کہ ’احقاقِ حق اور ابطالِ باطل‘ ان کے پیش نظر ہرگز نہیں ہے، بلکہ یہ لوگ صرف یہ چاہتے ہیں کہ قلم کے ذریعہ عقلی کشتی اور ذہنی دنگل لڑتے ہوئے قارئین طلوعِ اسلام کو اپنے یک رُخے مطالعہ کے خول میں بند رکھا جائے اور اُن کے ظلمت کدوں میں ہمارے روشن موقف کی کوئی کرن بھی نہ پہنچنے دی جائے۔ تاریکیوں میں پلنے والوں کا ہمیشہ سے یہی رویہ رہا ہے کہ ظلمت کے دبیز پردے ان پر بدستور قائم رہیں ، اور ان کا تاریک موقف یکطرفہ طور پر ہی ان کے قارئین تک پہنچتا رہے۔
یہی وجہ ہے کہ ماضی میں طلوعِ اسلام(مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے دلائل و براہین کو اپنے صفحات میں شائع کرنے کی بجائے) ڈاکٹر عبدالودود صاحب ہی کے موقف کو یکطرفہ طور پر شائع کرتا رہا ہے (حالانکہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اس پوری مراسلت کی اشاعت کا ابتدا ہی میں وعدہ کرڈالا تھا، اور پھر وہ یہ وعدہ نبھا نہ سکے)آج پھر طلوعِ اسلام یہ چاہتا ہے کہ اس بحث کونئے سرے سے چھیڑا جائے لیکن اشاعت کا وعدہ نہ کیا جائے تاکہ ماضی کی طرح ’وعدہ خلافی‘ کے الزام سے بچا جائے اور ساتھ ہی مطلوبہ یقین دہانی بھی نہ کرائی جائے، تاکہ یہ راہ کھلی رکھی جائے کہ اپنے مخالفین کے مضبوط موقف کو خود اُن کے اپنے الفاظ میں پیش کرنے کی بجائے