کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 123
اس تحدی پر جواباً میں نے یہ لکھا تھا کہ
’’اب اس فاضل درسِ نظامی مولوی صاحب کو یہ کون سمجھائے کہ خدائی لب و لہجے میں دیے جانے والے اس چیلنج سے بہت پہلے سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ ’جامع و مبسوط مضمون‘ کیا بلکہ منکرین حدیث کے جملہ اعتراضات و اشکالات کا مفصل جواب ’ترجمان القرآن ۱۹۶۱ء‘ کے شمارہ میں اور ’سنت کی آئینی حیثیت‘ نامی کتاب کے ۳۹۲ صفحات پر پیش کرچکے ہیں ۔ چونکہ اس قلمی مباحثہ نے منکرین حدیث کے غبارۂ استدلال کی ساری ہوا نکال دی تھی، اس لئے اپنے حلقہ کے لوگوں میں اس غبارے کو ہوا سے بھرا ہوا ظاہر کرنے کے لئے باربار یہ لوگ اپنے اس پراپیگنڈے کو دہراتے چلے جاتے ہیں کہ’’علماء کرام اس موضوع پر لکھنے سے ہمیشہ گریز کرتے ہیں ۔‘‘ تاکہ طلوعِ اسلام کے قارئین کو اپنے اس یکطرفہ یلغاری پراپیگنڈے کے خول میں بند رکھا جائے اور ان تک اپنے مخالفین کے روشن موقف کی کوئی کرن نہ پہنچنے پائے، اسی لئے اس پورے قلمی مباحثہ کو من و عن طلوع اسلام میں شائع نہیں کیا گیا (حالانکہ منکرین حدیث کے مباحث ڈاکٹر عبدالودودصاحب اس کی اشاعت کا وعدہ کرچکے تھے)۔‘‘ [1]
زیر بحث موضوع پر میری طرف سے حوالہ شدہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی نگارشات کو اور مدیر محدث جناب حسن مدنی صاحب کے بیان کردہ اُن مضامین و مقالات کو(جن کی فہرست ’فتنۂ انکار حدیث نمبر‘ میں موجود ہے) نظر اندازکرتے ہوئے، بلکہ ان کے متعلق یہ صریح جھوٹ بولتے ہوئے کہ __ ان میں ایک لفظ بھی ’حدیث وحی ہے‘ کے موضوع پرنہیں ہے__ فاضل درسِ نظامی، مولوی ازہر عباس صاحب نے جب از سر نو چیلنج پیش کیا تھا تو میں نے عرض کیا تھا کہ مولوی ازہر عباس صاحب
’’اگر طلوع اسلام میں دو طرفہ مباحث کو بغیر قطع و برید کے صحیح صحیح شائع کرنے کی یقین دہانی (طلوعِ اسلام ہی میں ) کرا دیں تو ان کے چیلنج کوقبول کیا جاسکتا ہے۔‘‘[2]
ہم نے دسمبر ۲۰۰۵ء سے لے کر مارچ ۲۰۰۶ء تک کے طلوعِ اسلام کو مسلسل دیکھا تو ہمیں مایوسی ہوئی کہ اس قسم کی یقین دہانی سے ہر شمارہ خالی تھا۔اپریل ۲۰۰۶ء کے شمارہ کی فہرست میں ’محدث کی خدمت ِعالیہ میں ‘ کا عنوان دیکھ کر ہمیں خوشی ہوئی کہ اس میں یقینا ہماری مطلوبہ