کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 122
کھولنا پڑی کہ ’’خواجہ ازہرعباس صاحب کا یہ کہنا کہ ’فتنۂ انکار حدیث نمبر‘ میں شائع ہونے والی فہرست میں ایک مضمون بھی ’حدیث وحی ہے‘ کے موضوع پر موجود نہیں ، صریح غلط بیانی اور بددیانتی ہے جب کہ وہاں انکار حدیث کے ردّ میں مضامین کی طویل فہرست میں حدیث کے وحی ہونے کا ایک مستقل عنوان قائم کرکے اس کے تحت کئی مضامین کی فہرست شائع کی گئی ہے جس میں جید اہل علم اور شیوخ الحدیث کے مضامین بھی شامل ہیں مثلاً 1. مولانا ثناء اللہ امرتسری کا مقالہ بعنوان ’حدیث منزل من اﷲ ہے!‘ 2. مولانا محمد محدث گوندلوی کا مقالہ بعنوان ’اقسام وحی‘ 3. مولانا عبدالغفار حسن کا مقالہ ’وحی، نبوت، سنت اور حدیث‘4. سابق مدیر معاون ’محدث‘ مولانااکرام اللہ ساجد کا ۴ قسطوں پر محیط مقالہ ’حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم وحی ہے‘۔5. غازی عزیر مبارکپوری کا مقالہ ’حدیث ِنبوی، وحی ہے اور اس کا منکر کافر ہے‘۔‘‘[1] رہا سنت کی آئینی حیثیت کے بارے میں ، فاضل درس نظامی مولوی ازہرعباس صاحب کا یہ (شعوری یا غیرشعوری)کذب کہ اس مباحثہ میں ایک لفظ بھی ’حدیث وحی ہے‘ کے موضوع پر نہیں ہے، تو اس دروغ کے ڈھول کا پول بھی، خود میں نے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ کتاب میں سے سترہ عنوانات پیش کرکے کھول دیا تھا، جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں : ’’1. کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟ 2. ما أنزل اﷲ سے کیا مراد ہے؟ صرف قرآنی وحی یا خارج از قرآن، وحی بھی؟ 3. وحی سے کیا مراد ہے؟4. از روئے قرآن وحی کی اقسام کیا ہیں ؟ 5. کیا وحی غیر متلو بھی جبریل ہی لاتے تھے؟ 6. وحی غیر متلو پر ایمان ایمان بالرسول کا جز ہے۔ 7. کیاوحی خواب کی صورت میں بھی ہوتی ہے؟ 8. وحی بلا الفاظ کی حقیقت و نوعیت؟ 9. وحی متلو اور غیرمتلو کا فرق10. کیا وحی صرف قرآن تک ہی محدود ہے؟‘‘[2] ان ساری نگارشات اور جملہ حوالوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جب فاضل درس نظامی مولوی ازہر عباس صاحب نے پھر یہ مطالبہ بطور تحدی پیش کیاکہ ’’پروفیسر(مولوی) محمد دین قاسمی اور ان کی معرفت تمام علماء اسلام کو تحدی (Challenge) کرتا ہوں کہ وہ اس موضوع پرکوئی جامع و مبسوط مضمون تحریر فرمائیں : وإن لم تفعلوا ولن تفعلوا‘‘[3]