کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 121
بولتا ہے تواُسے نباہنے کے لئے اُسے اور کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں ۔یہی حال ہمارے فاضل درسِ نظامی مولوی ازہر عباس صاحب کا ہے۔’ سنت کی آئینی حیثیت‘ کے بارے میں دانستہ یا نادانستہ دروغ گوئی کرتے ہوئے وہ محولہ بالا قلمی مباحثے کی بابت لکھتے ہیں :
’’اس مباحثہ کا موضوع سنت کی آئینی حیثیت تھا۔ اس سارے مباحثہ میں ایک لفظ بھی __’حدیث وحی ہے‘ __ کے موضوع پر نہیں ۔ ‘‘[1]
اس کذب ِ صریح کی پردہ دری کرتے ہوئے، میں نے یہ لکھا تھا کہ
’’اس مباحثہ میں مولانا (مودودی رحمۃ اللہ علیہ ) محترم نے ڈاکٹر عبدالودود صاحب کے جملہ سوالات واعتراضات کا وافی کافی اور شافی جواب دیا ہے اور منکرین حدیث کے اس نظریہ کی تغلیط کی تھی کہ __ وحی صرف قرآن ہی میں ہے اور خارج از قرآن وحی کا کہیں وجود نہیں ہے۔‘‘[2]
علاوہ ازیں مدیر محدث نے بھی ماہنامہ محدث کے ’فتنۂ انکار حدیث نمبر‘ میں شائع شدہ ۷۰۰مقالات کی فہرست میں ، ایسے مقالات کا ذکر کیا تھا جو موضوع زیربحث سے متعلق تھے، ان کے بارہ میں پھر صریح جھوٹ بولتے ہوئے فاضل درسِ نظامی مولوی ازہر عباس صاحب نے جب یہ کہہ کر انکار کیا کہ
’’جہاں تک … انکارِحدیث نمبر میں اس موضوع پر شائع ہونے والے ۷۰۰ کے لگ بھگ مقالات کی فہرست کے متعلق تحریر فرمایا ہے تو نہایت حیرت و استعجاب کی بات ہے کہ ان ۷۰۰ مقالات میں سے ایک مقالہ بھی__’حدیث وحی ہے‘ __کے موضوع پر نہیں ہے۔‘‘[3]
پھر الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق، اس کے متصل بعد ہی فاضل درس نظامی صاحب یہ لکھتے ہیں کہ
’’مجھے حیرت ہوتی ہے کہ قاسمی صاحب جیسے لوگ کیسے اس درجہ علمی بددیانتی کا ارتکاب کردیتے ہیں اور کس طرح قارئین کو مغالطٰہ دیتے ہیں ۔ وہ فہرست طبع شدہ موجود ہے اور ہر شخص، وہ پڑھ کر اس علمی بددیانتی (Intllectual Dishonesty)کی تصدیق کرسکتا ہے۔[4]
اس واضح دروغ اور بددیانتی کی قلعی محترم مدیر ’محدث‘ جناب حافظ حسن مدنی کو یہ کہہ کر