کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 120
نقد ونظر پروفیسر حافظ محمد دین قاسمی ’طلوعِ اسلام‘ کی خدمت ِعالیہ میں وحی صرف قرآن ہی میں ہے یا قرآن کے علاوہ بھی پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام پر وحی آیا کرتی تھی؟ اس پر علماے کرام نے قرآن کریم کی روشنی میں بہت کچھ لکھا ہے، لیکن منکرین حدیث کے ہم نواؤں میں سے مولوی ازہر عباس صاحب ، فاضل درسِ نظامی فرماتے ہیں : ’’لیکن جو اصل موضوع ہے، اور سب منکرین حدیث کا اصل الاصول اور عروۃ الوثقیٰ ہے کہ حدیث وحی نہیں ہے اور ’وحی صرف قرآن میں ہے۔‘ اس موضوع پر کچھ تحریر کرنے سے ہمارے علماے کرام ہمیشہ بچتے رہے اور اجتناب کرتے رہے ہیں ۔‘‘[1] ’’ہمارے علماے کرام، حدیث کو وحی ثابت کرنے کے لئے مضمون تحریر کرنے سے کیوں گریز کرتے ہیں ۔ تاحال کسی کتاب / رسالہ یا ’محدث‘ میں ایسا مضمون نہیں تحریر کیا گیا جس میں حدیث کو وحی ِخفی ثابت کیا گیا ہو۔‘‘[2] اس صریح کذب اور واضح جھوٹ کا پردہ چاک کرتے ہوئے، میں نے یہ لکھا تھا کہ ’’مقالہ نگار، اگر واقعی اس مسئلہ کی کھوج کرید میں مخلص ہوتے، تو ان کی رسائی اُس قلمی مناظرے تک ضرور ہوجاتی جو طلوعِ اسلام کی فکر سے وابستہ ایک فرد ڈاکٹر عبدالودود صاحب اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان واقع ہوا تھا، اور جس کی پوری رُو داد ترجمان القرآن ستمبر ۱۹۶۱ء میں اور بعد ازاں ’ سنت کی آئینی حیثیت‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئی تھی۔اس قلمی مناظرہ میں منکرین حدیث کے جملہ دلائل کا (بالخصوص وحی خفی پر اعتراضات کا) ایسا مسکت، اطمینان بخش اور ایمان افروز جواب دیاگیا تھا (اورہے) جو بہت سی بھٹکتی ہوئی شخصیتوں کے لئے باعث ِہدایت ثابت ہوا تھا (اور ہے)۔ [3] ہمارے اس بگڑے ہوئے ماحول میں یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جب کوئی شخص جھوٹ