کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 119
میں نکاح قائم ہے اور دوسری شکل میں رجوع نہیں ہوسکتا۔ کیاقنوت ِ نازلہ منسوخ ہوچکی ہے؟ ٭ سوال: تفسیر ابن کثیر میں قصہ اُحد کے ضمن میں ذکر کردہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ِکریمہ ﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الأمْرِ شَیْیٌٔ﴾ کے نزول کے بعد قنوتِ نازلہ ترک کردی تھی تو کیا آج بوقت ِضرورت نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ وضاحت فرمائیں ۔ جواب: جمہور کے قول کے مطابق غزوہ ٔاُحد ماہ شوال سن تین ہجری میں ہوا ہے جب کہ واقعہ بئر معونہ سن چار ہجری کے شروع میں پیش آیا۔ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے: وذلک بدء القنوتکہ’’ قنوت کا آغاز اس واقعے کی وجہ سے ہوا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ آیت ﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الأمْرِ شَیْیٌٔ﴾کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوہ اُحد میں زخمی ہونے سے ہے جس طرح کہ روایات میں بھی تصریح موجود ہے کہ یہی قصہ آیت کاسبب ِنزول ہے۔ جن روایات میں آیت ِمذکورہ کا شانِ نزول قصہ بئر معونہ یا قصہ رعل و ذکوان کوبتایا گیا ہے، وہ درست نہیں کیونکہ یہ واقعات اُحد کے بعد پیش آئے ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ سبب بعد میں پیدا ہو اور آیت کا نزول پہلے ہوچکا ہو؟ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : ’’درست بات یہ ہے کہ اس کا شانِ نزول وہ لوگ ہیں جن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصہ اُحد کے سبب بدعا کی تھی۔‘‘ (فتح الباری :۷/۳۶۶) اصل بات یہ ہے کہ اس حدیث میں اِدراج ہے، یعنی حتی أنزل ﷲ کے الفاظ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں عمن بلغہ (یعنی جس سے ان کو یہ روایت پہنچی ہے) منقطع ہے، امام مسلم نے یونس کی روایت میں اس بات کی تصریح کی ہے۔ نیز زہری کا یہ کہنا کہ ’’ہمیں یہ بات پہنچی ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت پڑھنا ترک کردی۔‘‘ یہ بلاغ درست نہیں ، وجہ وہی ہے جو پہلے گذر چکی ہے۔ (ملاحظہ ہو ،فتح الباری :۸/۲۸۶) ان دلائل سے معلوم ہوا کہ بوقت ِضرورت نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھی جاسکتی ہے، ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ۔