کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 117
قوم نے کہی:﴿إجْعَلْ لَّنَا إلـٰھًا کَمَا لَھُمْ آلِھَۃٌ قَالَ إِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُوْنَ﴾
’’ہمارے لئے بھی ایک الٰہ بنا دیجئے جس طرح انکے الٰہ ہیں ۔ فرمایا: تم بہت جاہل لوگ ہو۔‘‘
2. یاد رہے کہ اس دروازے کے متعلق بہشتی دروازہ ہونے کا اعتقاد رکھنا شرکیات وکفریات میں داخل ہے کیونکہ یہ ایسی بات ہے جس کا علم نصوصِ شریعت کی راہنمائی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا، جب کہ یہاں سرے سے کوئی نص اور دلیل موجود ہی نہیں ۔لہٰذا عزم بالجزم کے ساتھ اس کو بہشتی دروازہ قرار دینا اُمور دین میں مداخلت ہے جس کی سزاانتہائی خطرناک ہے۔ ایسے اعتقاد سے فی الفور تائب ہونا ضروری ہے، ورنہ ڈر ہے کہ کہیں جہنم کا ایندھن نہ بن جائیں ۔ اللہ تعالیٰ کتاب وسنت کی روشنی میں صحیح عقائد کی توفیق عطا فرمائے تاکہ حقیقی جنت میں داخلہ ہمارا مقدر ہو۔ آمین!
موسم کی خرابی کی بنا پر نمازوں کو جمع کرنا
٭ سوال:1. موسم کی خرابی کی بنا پراذان میں کون سے لفظ اور کتنی مرتبہ کہنے چاہئیں ؟
2. دورانِ بارش کی صورت میں دو نمازیں جمع ہوسکتی ہیں یانہیں ؟
3. جمع کی اس صورت میں سنتیں ادا کرنا پڑیں گی یا نہیں ؟
4. عورتیں گھر میں مردوں کی طرح مذکورہ مسئلہ پرعمل کرسکتی ہیں یانہیں ؟
جواب: 1. ایسی صورت میں الصلاۃ في الرحال یا ألاصلوا في الرحال یا صلُّوا في بیوتکم جیسے الفاظ کہے جائیں ۔ حَیَّعَلتین کا بدل یا اس سے ملحق ہونے کی بنا پر بظاہر گنتی ان جیسی ہوگی، یعنی دودو دفعہ۔ ابن عمر رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث کے مطابق اذان کے بعد بھی یہ کلمات کہنے کا جواز ہے ، البتہ ایسی شکل میں بظاہر ایک دفعہ ہی کافی ہے۔
2. ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بارش کی وجہ سے جمع جائز ہے۔ نیل الاوطار میں اس پربحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی جمع کرلیتے تھے جو سنت کے بڑے متبع تھے۔ جہاں شرعاً جمع کرنے کی اجازت ہو وہاں سنتیں معاف ہیں ، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مدینہ میں جمع کرنے کا ذکر ہے اور سنتیں نہیں پڑھیں ، صرف ظہرو عصر کی آٹھ رکعتیں پڑھیں اور مغرب وعشا کی سات رکعتیں پڑھی ہیں اور اس حدیث سے بارش میں جمع