کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 116
1. جنت کا دروازہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھلوائیں گے، کیا یہ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور گستاخی نہیں ۔
2. جو لوگ اس دروازے سے گزرتے ہیں ، ان کے بارے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا حکم ہے؟ (مرزا سجاد انور،فیصل آباد)
جواب:1. شریعت کی نگاہ میں ’بہشتی دروازے‘ کا اطلاق صرف اُخروی جنت کے دروازے پرہوتا ہے۔چنانچہ صحیح مسلم میں حدیث ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( وأنا أول من یقرع باب الجنۃ)) (رقم:۱۹۶)
’’سب سے پہلے میں جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا‘‘
صحیح مسلم ہی کی دوسری روایت میں الفاظ یوں ہیں :
(( آتي باب الجنۃ یوم القیامۃ)) (رقم:۱۹۷)
’’قیام کے روز میں جنت کے دروازہ میں آؤں گا۔‘‘
اور صحیح بخاری میں ہے : (( في الجنۃ ثمانیۃ أبواب)) (رقم:۳۲۵۷)
’’جنت میں آٹھ دروازے ہیں ۔‘‘
ان نصوص سے معلوم ہوا کہ بطورِ شعار بہشتی دروازہ کااطلاق صرف جنات ِ خلد پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی محترم و مکرم چیز کی طرف منسوب دروازہ کو باب الجنۃ نہیں کہاجاسکتا۔ امکانی حد تک اگر اس کاجواز ہوتا تو سلف صالحین اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانے یعنی خیر القرون اس کے زیادہ حقدار تھے۔ اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس سے ’بہشتی دروازے‘ کے جواز کاپہلو مترشح ہوتاہو۔ لہٰذا اس کا ڈھا دینا ضروری ہے تاکہ افرادِ اُمت کو شرک کی نجاست سے بچایا جاسکے جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیعت الرضوان کی طرف منسوب درخت کو کٹوا دیا تھا جبکہ عامتہ الناس اسے متبرک سمجھ کر اس کی زیارت کا قصد کرنے لگے تھے، ملاحظہ ہو فتح الباری (۷/۴۴۸)
اس طرح مسند احمد (۵/۲۱۸) اور سنن نسائی کبریٰ (حدیث نمبر ۱۱۱۸۵) میں مذکور ہے کہ حنین سے واپسی پرایک بہت بڑی بیری کے قریب سے گزرتے ہوئے بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمارے لئے ’ذاتِ انواط‘ مقرر کردیں جیسا کہ کفار کے لئے ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم نے وہی بات کہی جو موسیٰ علیہ السلام سے ان کی