کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 113
کتاب کاعنوان نہیں __ آخر کیوں ؟
4. نویں صدی تک کے ائمہ محدثین المصنف کی سماعات کاذکر کرتے ہیں نہ وہ نقص کا اشارہ کرتے ہیں اورنہ ہی اُنہوں نے ان اسانید سے روایات کااشارہ کیاہے۔
5. یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ کی اسانید سے پانچ روایات الجزء المفقود میں ہیں اور ان کی اسانید سے عیاں ہوتاہے کہ یہاں سند سازی کی گئی ہے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ یحییٰ کثیر الروایہ ہیں ، الجزء المفقود کی چالیس روایات میں پانچ روایات اس سے مروی ہیں ،مگر المصنف میں ان کے علاوہ اور کوئی روایت نہیں پائی جاتی، آخر کیوں ؟
6. ابن جریج أخبرنی البراء کی سند اس کے وضعی ہونے کی دلیل ہے۔
7. الزہري سمع عقبۃ بن عامر کی سند بھی اس کے بناوٹی ہونے کا ثبوت ہے۔
8. عبدالرزاق أخبرني الزہري کی سند بھی کسی کذاب کی کارستانی ہے۔
9. امام ابن عیینہ کو امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا استاد ظاہر کرنا اس کی ثقاہت کے منافی ہے۔
10. تسمیہ وضو کی روایت کی سند تمام محدثین کی تصریحات کے خلاف اس کے بناوٹی ہونے کی دلیل ہے۔
11. حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ِنور کا متن، المواہب میں المصنف کے حوالہ سے نقل کئے گئے متن کے بالکل برعکس ہے۔ اگر یہی اس کی سند ہے تو اتنا گھپلا کیوں ؟ دونوں میں صحیح متن کون سا ہے اور کس ترتیب سے ہے؟ الجزء المفقود کے بعد المواھب کے بیان و تفصیل کی پوزیشن کیا ہے؟
12. الجزء المفقود کی پہلی روایت بھی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے منافی ہے۔ بلکہ وہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی پیدائش ثانوی درجہ میں رہ جاتی ہے اور اس کا پورا متن بھی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کے خلاف ہے اورکسی قصہ گو کی کارستانی معلوم ہوتی ہے۔
اُمید ہے کہ ہماری ان گزارشات کو ٹھنڈے دل و دماغ سے پڑھ کر سنجیدگی سے فیصلہ کیاجائے گا کہ الجزء المفقود المصنف کا حصہ ہے یا نہیں ؟ کسی کتاب کے جز کاکسی امام کی طرف انتساب کوئی اچنبھے کی بات نہیں ، ایسی کارستانی ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے جیسا کہ ہم آغاز میں بحوالہ ذکر کر آئے ہیں ۔