کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 112
کے نور کو جو طاؤس کی شکل دی گئی، اس کے سر کے پسینہ سے فرشتے پیدا ہوئے۔ چہرے کے پسینہ سے عرش، کرسی ،لوح وقلم ،شمس وقمر ،ستارے اور دیگر آسمانی اشیا بنیں ، اس کے سینہ کے پسینہ سے انبیاء و رسل، علماء و صلحاء و شہدا پیداہوئے۔ پھر باقی اعضا کے پسینہ سے دیگر مخلوقات بننے کاذکر ہے۔ اس کے بعد پھر کہاگیا :
’’ثم سبح سبعین ألف سنۃ ثم خلق نور الأنبیاء من نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘
’’پھرطاؤس نے ستر ہزار سال تک اللہ کی تسبیح بیان کی، پھر انبیاء علیہم السلام کا نور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے پیداکیا۔ ‘‘
قابل غور بات یہ ہے کہ آپ کے عرقِ صدر سے انبیاء علیہم السلام کی تخلیق تو پہلے ہوچکی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے انبیا کے نور کا پیدا ہونا چہ معنی دارد؟ پھر اس میں تمام آسمانی اشیاء کو چہرے کے پسینہ سے پیدا ہونا بتلایا گیا،جبکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں معاملہ اس کے برعکس ہے جیساکہ تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اس لئے یہ پہلی روایت ہی اپنی سند صحیح ہونے کے باوجود حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کے مخالف اور اس کا متن اس کے وضعی ہونے کی دلیل ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ روایات کسی کذاب یاوضاع کی گھڑی ہوئی ہیں ۔
امام عبدالرزاق کی ہمشیرہ کا بیٹا احمد بن عبداللہ تھا جسے احمد بن داود بھی کہا گیا ہے، وہ کذاب تھا اور حدیثیں بنا بناکر امام عبدالرزاق کی احادیث میں داخل کردیتا تھا۔ (میزان و اللسان: ج۱/ ص۱۷۰،۱۹۷) کیا بعید ہے کہ یہ کارستانی کہیں اسی کی نہ ہو۔ ورنہ المصنف کاراوی تو اسحق بن ابراہیم الدبری ہے اور جن حضرات نے اس کی سند سے المصنف کاسماع کیا ہے وہ نہ تو المصنف کے ناقص ہونے کا ذکر کرتے ہیں اور نہ ہی کہیں ان روایات کا اشارہ کرتے ہیں جیساکہ پہلے ہم ذکر کر آئے ہیں ۔ ہماری ان گزارشات سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ الجزء المفقود المصنف کا قطعاً حصہ نہیں ۔تفصیل کاخلاصہ یہ ہے کہ
1. ڈاکٹرعیسیٰ حمیری خود اس کے انتساب میں پوری طرح مطمئن معلوم نہیں ہوتے۔
2. اس کاناسخ مجہول ہے، نہ اس پرمحدثین کی سماعات ہیں اور نہ ہی کسی سے ا س کی توثیق منقول ہے۔
3. المصنف کتاب اور ابواب کے تحت مرتب کی گئی ہے جبکہ الجزء المفقود میں