کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 111
معنوی اعتراضات اور ان کے جوابات معلوم شد، ہم یہاں اس تفصیل میں جانا نہیں چاہتے، نہ ہی یہ ہمارا موضوع ہے۔ لیکن اسی حوالے سے الجزء المفقود کی پہلی روایت کی سند اور ابتدائی الفاظ ملاحظہ ہوں :
’’عبدالرزاق عن معمر عن الزھري عن السائب بن یزید قال إن ﷲ تعالیٰ خلق شجرۃ ولھا أربعۃ أغصان فسماھا شجرۃ الیقین،ثم خلق نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم في حجاب من درۃ بیضاء مثلہ کمثل الطاؤس ووضعہ علی تلک الشجرۃ فسبح علیھا مقدار سبعین ألف سنۃ‘‘
سند کے سب راوی ثقہ ہیں ۔ سائب رضی اللہ عنہ بن یزید صحابی ہیں ۔یہ روایت گو مرفوع نہیں لیکن حکماً مرفوع ہے،کیونکہ حضرت سائب نے جوکچھ بیان فرمایا ہے، وہ عقل و فکر کا مسئلہ نہیں نہ ہی وہ اہل کتاب سے لینے والے ہیں ۔ اس کا تعلق بدء الخلق سے ہے، اس لئے یہ حکما ًمرفوع ہے۔ حضرت سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’اللہ تعالیٰ نے ایک درخت پیدا کیا،جس کی چار شاخیں تھیں ۔اس کا نام شجرۃ الیقین رکھا پھر نورِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا،ایک سفید موتی کے پردہ میں اس کی شکل و صورت طاؤس کی سی تھی اور اسے اس درخت پررکھا تو اس نے ستر ہزارسال تک اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کی۔ ‘‘
یہ بعد کی کہانی ہمارا موضوع نہیں ۔ ہم صرف اتنی بات عرض کرناچاہتے ہیں کہ اس روایت میں نورِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق شجرۃ الیقین کے بعد بیان ہوئی ہے۔ اس روایت میں تخلیق حقیقی اور اضافی کی تاویل کی بھی گنجائش نہیں ، کیونکہ اس کا بیان یہاں ثُمَّ سے ہوا جو تراخي چاہتا ہے اور بیان ہے کہ طاؤس کی صورت میں یہ نورِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس درخت پربٹھایا گیا جس سے تخلیقا ً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی اوّلیت ثانوی حیثیت میں رہ جاتی ہے۔ڈاکٹر حمیری نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کے تحت پیدا ہونے والے اشکالات کا جواب دینے کی کوشش کی مگر حضرت سائب رضی اللہ عنہ کی روایت سے جواشکال وارد ہوتا ہے اور تخلیق کی جو کہانی اس میں بیان ہوئی ہے، وہ حضرت جابر کی روایت کے بالکل برعکس ہے۔ افسوس ہے کہ چارہ گروں نے اس طرف مطلق توجہ نہیں دی۔ یہ پہلی روایت جو تقریباً تین صفحات پرمشتمل ہے، اس کا پورا مضمون اس کے وضعی اور من گھڑت ہونے کی دلیل ہے۔آپ اندازہ لگائیں کہ اس روایت میں فرمایاگیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم