کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 110
چوتھا حصہ بارہ ہزار سال تک مقام حیا میں کھڑا رہا۔چنانچہ اس کے الفاظ ہیں :
’’ثم جعلہ أربعۃ أجزاء فخلق العقل من جزء والعلم والحکمۃ والعصمۃ والتوفیق من جزء وأقام الجزء الرابع في مقام الحیاء اثنی عشر ألف سنۃ‘‘
اوّلاً تو یہاں تیسرے حصۂ نور سے تخلیق کاذکر ہی نہیں ۔ شاید یہاں بھی ڈاکٹر حمیری کی نظر سے چوک ہوئی ہو، مگر کیا کیا جائے المواھب میں المصنف کے حوالے سے اس کے بالکل برعکس ہے کہ
’’فخلق من الأول نور أبصار المؤمنین، ومن الثاني نور قلوبھم وھي المعرفۃ باﷲ،من الثالث نور إنسھم وھو التوحید لا إلہ إلا ﷲ محمد رسول ﷲ‘‘الحدیث۔
’’اسکے ایک حصہ سے مؤمنوں کی آنکھوں کا نور، دوسرے سے ان کے دلوں کا نور یعنی اللہ کی معرفت اور تیسرے سے ان کے انس کا نور پیدا کیا یعنی توحید لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔‘‘
دونوں روایتوں میں فرق ہر اس شخص کونظر آتا ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے نورِ ایمان سے نوازا ہے۔ اس کے باوجود الجزء المفقود کو المصنف عبدالرزاق باور کرانا اور اس کی سند دیکھ کر خوشی کے ڈونگرے برسانا کہ المواھب میں عبدالرزاق کی بیان کردہ سند مل گئی، ہمارے نزدیک نہایت طفلانہ شوخی ہے۔علم الروایہ سے معمولی شد بد رکھنے والابھی اس فرق کو سمجھ سکتاہے مگر افسوس! ڈاکٹر حمیری اور ان کے ہم نوا ڈھنڈورچی اسے محض نسخوں کا فرق قرار دینے پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں ۔علامہ قسطلانی نے اس کے بعد کا حصہ نقل نہیں کیا، جس سے پتہ چلتا کہ دونوں کے الفاظ کیاہیں ؟ المواھب کے شارح علامہ زرقانی کو المصنف کانسخہ نہیں ملا، اس لئے اُنہوں نے فلیراجع من مصنف عبدالرزاق مع تمام الحدیث کہہ کر خاموشی اختیار کی۔
الجزء المفقود کی پہلی حدیث اور حدیث ِ نور
اول تخلیق کے حوالے سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت تو معروف ہے۔ اس کے بارے میں