کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 108
ولاقمر ولا جني ولا إنسي‘‘ غور فرمائیے، آخری حصہ تو ’’الحدیث یفسر بعضہ بعضا‘‘ کا مصداق ہے جبکہ پہلے حصہ میں فرمایا گیا ہے کہ یہ نور قدرت سے جہاں چاہا، چکر لگاتارہا۔ اندازہ کیجئے دونوں میں کتنا نمایاں فرق ہے۔الجز میں ربّ ذوالجلال کے سامنے مقامِ قرب میں ٹھہرنے کاذکر ہے جبکہ المواھب میں اپنی مرضی سے چکر لگانے کا ہے۔الجزء میں مقامِ قرب میں یہ حضوری بارہ ہزار سال بتلائی گئی جبکہ المواھب میں سرے سے اس کاذکر ہی نہیں ۔پھر الجزء میں ہے کہ اس نور کے چار حصے کئے، ایک قسم سے عرش اور کرسی، ایک قسم سے حاملین عرش اور خزنۃ کرسی، اور چوتھی قسم مقامِ محبت میں بارہ ہزار سال کھڑی رہی۔چنانچہ اسکے الفاظ ہیں : ’’ثم جعلہ أربعۃ أقسام فخلق العرش والکرسي من قسم وحملۃ العرش وخزنۃ الکرسي من قسم وأقام القسم الرابع في مقام الحب اثنی عشر ألف ثم جعلہ أربعۃ اقسام‘‘ اوّلاً تو یہاں اس نور کے تیسرے حصے سے جو کچھ بنا، اس کا سرے سے تذکرہ ہی نہیں ۔ شاید یہ حصہ جناب دکتور حمیری صاحب کی نورِ نظر سے اوجھل ہوگیا ہے۔ ثانیاً: المواھب میں اس کے برعکس اس نور سے جن تین چیزوں کے وجود میں آنے کاذکر ہے، وہ یہ ہیں پہلے حصہ میں القلم، دوسرے حصہ سے اللوح، تیسرے حصے میں العرش، چنانچہ المواھب کے الفاظ ہیں : ’’فخلق من الجزء الأول القلم،ومن الثاني اللوح،ومن الثالث العرش، ثم قسم الجزء الرابع أربعۃ أجزائ‘‘ الفاظ کے تغیر سے قطع نظر یہاں نور کے چوتھے حصہ کا بارہ ہزار سال تک مقامِ محبت میں کھڑے رہنے کا بھی ذکر نہیں ۔ اور نور کے اجزا سے تخلیق ِ کائنات میں فرق بھی نمایاں طور پر ظاہر ہورہا ہے۔ اس کے بعد الجزء المفقود میں ہے کہ اس چوتھے حصہ نور کو چارپر تقسیم کیا گیا تو ایک حصہ سے القلم، ایک حصہ سے لوح، ایک حصہ سے جنت اور چوتھا بارہ ہزار سال تک مقامِ خوف میں رہا۔ چنانچہ اس کے الفاظ ہیں :