کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 107
ہے، اس لئے یہ یعقوب کیونکر ہوسکتا ہے؟
حدیث ِنور
اب آئیے اس روایت کو بھی ایک نظر دیکھ لیجئے جس کے لئے یہ الجزء المفقود طبع کیا گیا۔ جس کی تخریج میں کہا گیا کہ شیخ ابن عربی نے تلقیح الفھوم میں انہی الفاظ سے ذکر کیا ہے، الخرکوشی نے شرف المصطفیٰ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس معنی میں روایت بیان کی ہے، عجلونی نے کشف الخفاء میں عبدالرزاق سے یہ روایت نقل کی ہے۔ اور قسطلانی نے اسے المواھب اللدنیۃ میں ذکر کیاہے، اور عبدالملک الطبنی نے اپنے فوائد میں اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔
قارئین کرام غور فرمائیں کہ کیا شیخ ابن عربی نے اسے المصنف عبدالرزاق کی سند سے نقل کیا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے سند کیا ہے؟اور وہ بھی المصنف کی روایت کے ہم معنی ہیں ۔ عبدالرزاق کے حوالے سے کشف الخفاء کاحوالہ بھی ثانوی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ علامہ عجلونی نے جو کچھ نقل کیا، المواھب اللدنیۃ سے نقل کیا ہے۔ گویاالمصنف کے حوالہ سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت سب سے پہلے علامہ قسطلانی نے ذکر کی ہے اور وہ بھی بلاسند، اور اب المصنف عبدالرزاق میں مل گئی جس کی بظاہر سند بھی درست ہے،مگر مقامِ غور ہے کہ علامہ قسطلانی نے جو الفاظ المصنف سے نقل کئے ہیں کیا انہی الفاظ سے یہ الجزء المفقود میں ہے؟ قطعاً نہیں ۔نسخوں کے اختلاف میں الفاظ کے مختلف ہونے کی بات اپنی جگہ مگر یہاں تو سرے سے اصل موضوع ہی بدلا ہواہے۔ اور وہ یوں کہ المواھب میں ہے کہ نور نبیک من نورہ جبکہ الجزء المفقود میں ہے : ’’نور نبیک یا یا جابرخلقہ ﷲ‘‘ اس کے بعد الجزء میں ہے: ’’ثم خلق فیہ کل خیر وخلق بعدہ کل شیئ وحین خلقہ أقامہ قدامہ من مقام القرب اثنی عشر ألف سنۃ‘‘ کہ’’ پھر اس نور میں ہر قسم کی خیرپیداکی اور اس کے بعد ہر چیز کو پیداکیا، اور جب سے اسے پیدا کیا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے سامنے مقامِ قرب میں بارہ ہزار سال رکھا۔‘‘ جبکہ المواھب میں ہے:
’’فجعل ذلک النور یدور بالقدرۃ حیث شاء ولم یکن في ذلک الوقت لوح ولا قلم ولا جنۃ ولا نار ولا ملک ولاسماء ولا أرض ولا شمس