کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 106
کے علاوہ بھی کسی نے روایت کیا ہے۔‘‘ (البدر المنیر:ج۲ ص۷۸) ہم اس حدیث کی صحت وضعف کے بارے میں بحث نہیں کرناچاہتے بلکہ صرف یہ عرض کرناچاہتے ہیں کہ امام احمد، امام اسحق کا فرمانا کہ اس باب میں سب سے بہتر روایت کثیر بن زید کی ہے۔ امام بزار، امام ابن عدی کا فرمانا کہ کثیر کے علاوہ کسی اور نے یہ روایت بیان نہیں کی۔ امام احمد، امام اسحق براہ راست امام عبدالرزاق کے شاگرد ہیں ۔ امام حاکم، امام بیہقی نیز علامہ ابن ملقن اور حافظ ابن حجر وغیرہ اسحق بن ابراہیم الدبری جو المصنف عبدالرزاق کے راوی ہیں کے واسطہ سے المصنف کی جابجا روایات ذکر کرتے ہیں ۔ اگر یہ روایت ان کی المصنف میں زہری عن ربیع کی سند سے ہوتی تو کیا یہ حضرات کثیر کاتفرد اور اس کی سند سے اسے سب سے بہتر قرار دیتے؟ … ہرگز نہیں ! ان محدثین کے تبصرہ کے بعد اس روایت کی یہ سند بھی خانہ ساز اور وضعی معلوم ہوتی ہے۔ آٹھویں حدیث اور ڈاکٹر حمیری الجزء المفقود ص۸۲ میں حدیث ۲۱ کی سند یوں ہے: ’’عبدالرزاق عن ابن جریج أخبرہ رجل عن أبي ھریرۃ‘‘ یہ روایت بھی تسمیۃ في الوضوء کے بارے میں ہے جو مسند امام احمد، سنن ابی داود، ابن ماجہ وغیرہ کتب میں یعقوب بن سلمۃ عن أبیہ عن أبی ہریرۃ کی سند سے معروف ہے۔ امام حاکم نے یعقوب بن سلمہ کو یعقوب بن أبي سلمۃ الماجشون قرار دیا ہے،مگر علامہ ابن صلاح، علامہ نووی، علامہ ابن دقیق العید، علامہ ذہبی، علامہ ابن مُلقن اور علامہ زیلعی وغیرہ نے خبردار کیا کہ یہ امام حاکم کاوہم ہے، صحیح یعقوب بن سلمۃ ہے۔ یہاں ڈاکٹر حمیری کی لیاقت دیکھئے، فرماتے ہیں : اس سند میں ابن جریج کا استاد رجل مبہم ہے اور وہ ہے یعقوب بن سلمۃ اللیثي،ا ن کے الفاظ ہیں : إن الرجل ھو یعقوب بن سلمۃ اللیثي مگر یہ بات ان کے حاشیہ خیال میں نہ آئی کہ جن مراجع کی بنیاد سے المصنف میں رجل کو یعقوب بن سلمہ قرار دیاہے، وہ تو انہی مراجع میں اپنے باپ سلمۃ سے روایت کرتے ہیں جبکہ رجل براہِ راست حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا