کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 104
للبخاري:ج۲/ ص۳۴۳) ۔کوئی حتمی تاریخ وفات کاذکر نہیں ملا۔ اب محض اس الجزء المفقودکی بنیاد پر ابنعیینہ کو یزید رقاشی کاشاگرد کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے؟ بالخصوص جبکہ خود ابن عیینہ فرماتے ہیں : ’’أول من جالست عبد الکریم أبوأمیۃ وأنا ابن خمس عشرۃ سنۃ قال وقرأ ت القرآن وأنا ابن أربع عشر سنۃ‘‘ (السیر: ج۸/ ص۴۶۴) ’’سب سے پہلے جس کے سامنے میں نے زانوے تلمذ طے کئے ہیں وہ عبدالکریم بن ابی المخارق ابواُمیہ ہیں ، تب میری عمر ۱۵ سال تھی اور میں نے قرآنِ مجید ۱۴ سال کی عمرمیں پڑھا۔‘‘ جب صورتِ واقعہ یہ ہے کہ امام ابن عیینہ کاسن تحمل ۱۵ھ ہے تو اس حساب سے۱۱۰ھ سے۱۲۰ھ کے مابین فوت ہوجانے والے یزید رقاشی بصری سے ان کاسماع کیونکر متعین ہوسکتا ہے؟ اس لئے یہ سند بھی خانہ ساز ہے اور علم الروایہ کے بالکل منافی ہے۔ چھٹی سند الجزء المفقود ص۹۴ کی حدیث ۴۰ کی سند ملاحظہ فرمائیں : عبدالرزاق عن الزھري عن جندب عن الأسود بن یزید أن ابن عمر توضأ ۔۔۔ الخ ابھی ہم ’چوتھی سند‘ کے تحت ذکر کرآئے ہیں کہ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ سے امام عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات ہی ثابت نہیں ۔ امام عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ ، امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد پیدا ہوئے،لہٰذا حسب ِسابق یہ سند بھی بناوٹی ہے۔ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر حمیری اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں : ھٰذا الاسناد فیہ انقطاع بین عبدالرزاق والزھري‘‘ کہ اس سند میں زہری اور عبدالرزاق کے مابین انقطاع ہے مگر اس سے قبل ص۸۸ حدیث ۲۸ میں جہاں عبدالرزاق أخبرني الزہري کہہ کر دونوں کے مابین سماع کی صراحت کی گئی ہے، اس کے بارے ڈاکٹر صاحب بالکل خاموش ہیں ۔ ہمارا سوال یہی ہے کہ جس سے سماع نہ ہو اس کے باوجود راوی اس سے سماع کا اظہار کرے تو اسے کیاکہا جائے گا؟ امام عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں غلط بیانی اور کذب کاالزام بہرنوع غلط ہے۔اب اس کی جسارت کسی غلط کاراور