کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 102
میں ہے اور یہ مُعنعن ہے یعنی زھري عن عقبۃ مگر یہ شرف صرف الجزء المفقود کے ناسخ یاراوی کو حاصل ہوا کہ اس نے امام زہری کاحضرت عقبہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت کردیا ۔ ماشاء اﷲ! متن میں نکارت حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کے الفاظ ہیں : ’’من توضأ فأتم وضوء ہ ثم رفع رأسہ إلی السمائ۔۔۔الخ‘‘ فاضل ڈاکٹر حمیری نے اس کی تخریج میں صحیح مسلم اورابن ابی شیبہ وغیرہ کاحوالہ دیا اور فرمایا: ’’من طریق ابن عثمان بن نفیر عن جبیر أبي عثمان بن مالک الحضرمي‘‘ لیکن یہ کمپوزنگ کی غلطی ہے، صحیح ’’من طریق أبي عثمان عن جبیر بن نفیر بن مالک ہے۔ اس سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ کیا اس سند سے محولہ کتابوں میں ’’ثم رفع رأسہ إلی السمائ‘‘ کے الفاظ موجود ہیں ؟ ڈاکٹر حمیری تک تو شاید ہماری یہ گزارشات نہ پہنچ پائیں مگر پاکستان میں ان کے ہم نوا اور اس نسخہ کی تحسین کرنے والے تو موجود ہیں ، کیا وہ بتاسکتے ہیں کہ محولہ کتب میں حاشیہ کی بیان کی ہوئی سند میں یہ اضافہ موجود ہے؟ ﴿وَادْعُوْا شُھَدائَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ ﷲِ إِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ اضافہ أبوعقیل عن ابن عمہ عن عقبۃ کی سند سے ابوداود ج۱/ ص۶۶ مع العون، ابن ابی شیبہ ج۱/ ص۴، مسنداحمد ج۴/ ص۱۵۰،۱۵۱ اور سنن دارمی ج۱/ ص۱۸۲ میں ہے اور اس میں ابن عم ابی عقیل مجہول ہے، جیساکہ علامہ منذری نے مختصر ابی داود میں کہا ہے۔ غور فرمائیے ڈاکٹر حمیری نے کس ہوشیاری سے اس متن کو صحیح بنانے کی کوشش کی ہے۔ رہی الجزء المفقود کی سند تو اس کا قصہ آپ کے سامنے ہے۔ چوتھی سند اور ڈاکٹر حمیری کی دھاندلی الجزء المفقود (ص۸۸ رقم ۲۸) کی ایک سند دیکھئے : ’’عبدالرزاق قال أخبرني الزھري عن سفیان بن شبرمۃ عن سعید بن جبیر‘‘ اوّلاً سوال یہ ہے کہ سفیان بن شبرمہ کون ہے؟ ڈاکٹر حمیری کی دھاندلی دیکھئے کہ وہ یہاں تو اس کے تعارف سے خاموش ہیں مگر رجال کی فہرست ص۱۰۴ میں اس کو ثقہ قرار دیتے ہیں ۔إنا