کتاب: محدث شمارہ 299 - صفحہ 100
یحییٰ کی پانچویں حدیث یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدۃ کی پانچویں حدیث اسی صفحہ ۹۱ حدیث ۳۵ پر ہے۔ جس کے متعلق کہا گیا ہے : ’’وبھذا الإسناد عن ابن عمر‘‘ کہ’’ اسی سند سے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے۔‘‘ لیجئے جناب! یہاں یحییٰ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ طبقہ تاسعہ میں شمار ہوتے ہیں ۔ مگر اس کے بارے میں بھی ڈاکٹر حمیری خاموش ہیں ۔ اندازہ کیجئے کہ الجزء المفقودکی چالیس روایات میں پانچ روایات یحییٰ بن ابی زائدہ سے مروی ہیں جو اس بات کا قرینہ ہے کہ یحییٰ کثیر الروایہ ہیں ۔ اور الجزء المفقود میں اس کی تین روایات امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ہیں ۔ مگر کس قدر تعجب کی بات ہے کہ اس کے باوجود یحییٰ امام مالک کے شاگرد ہیں ،کسی نے اُنہیں امام مالک کا استاد قرار نہیں دیا۔ اور نہ پوری المصنف عبدالرزاق میں اس کے علاوہ کہیں مالک عن یحییٰ بن ابی زائدۃ کی کوئی روایت پائی جاتی ہے۔ بلکہ مختلف ذرائع سے ہم نے اس کاتتبع کیا کہ المصنف کے مطبوعہ نسخہ میں ایک روایت بھی یحییٰ بن ابی زائدہ کی مروی نہیں ، آخر یہ کیوں ؟ ایک اور سند اور لطیفہ الجزء المفقود ص۵۵ حدیث ۲ کی سند ملاحظہ فرمائیں : ’’عبدالرزاق عن ابن جریج قال أخبرني البراء قال ما رأیت شیئًا قط أحسن من رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ قارئین کرام یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ اس الجزء کے فاضل محقق جناب ڈاکٹر حمیری فرماتے ہیں : ’’ ابن جریج حافظ ثقۃ وکان یدلس فقد صرح ھنا بالإخبار‘‘ ’’ ابن جریج ثقہ حافظ اور مدلس تھے مگر یہاں اُنہوں نے ’اخبرنی‘کہہ کرسماع کی تصریح کی ہے۔‘‘ بے خبری اور اندھی عقیدت کی بھی کوئی انتہاہوتی ہے،جس کی بنا پر وہ اس سند کو أخبرني دیکھ کرسماع پر محمول کرتے ہیں اور اتنی سی بات بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتے کہ ابن جریج تو ۸۰ھ میں پیدا ہوئے،جیسا کہ التہذیب ج۶/ ص۴۰۵ اور السیر ج۶/ ص۳۳۳،۳۳۴ میں ہے