کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 9
اس کے کناروں سے کھاؤ ،اس کے درمیان سے نہ کھاؤ۔‘‘
شریعت کے اس مجموعی اور عمومی مزاج کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ فقہا نے مزاج شریعت سے بعض نہایت اہم قانونی ضابطے وضع کئے جنہیں فقہی مسائل کے استنباط میں پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ ان کے لئے القواعد الفقہیۃ (Legal Maxims)کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔
مشہور قاعدہ فقہیہ ہے : ’’المشقۃ تجلب التیسیر‘‘ ’’اسلام نے ہر مشقت کے وقت آسانی کی راہ پیدا کی ہے۔‘‘ چنانچہ قرآنِ کریم نے اسی اُصول کے پیش نظر ہی نابالغ بچوں اور بے رغبت ما تحتوں سے پردے میں زیادہ سختی نہیں کی۔ حالانکہ بچوں کے اندر جنسی اُمور کا احساس موجود ہوتا ہے اور جنسی معاملات سے وہ کافی حد تک واقف بھی ہوتے ہیں ، لیکن اس حکمت کے تحت کہ وہ الطوافین والطوافات میں سے ہیں (ان کا آنا جانا عموماً زیادہ ہوتا ہے) ان سے پردہ میں یقینا مشکل پیدا ہوتی، لہٰذا مذکورہ مصلحت کے تحت ان سے پردہ کو ضروری قرار نہیں دیا لیکن احتیاط کے طور تمام بچوں اور غلاموں پر بھی ان تین اوقات میں آنے جانے پر قدغن عائد کردی :
﴿ مِنْ قَبْلِ صَلوٰۃِ الْفَجْرِ وَحِیْنَ تَضَعُوْنَ ثِیَابَکُمْ مِنَ الظَّھِیْرَۃِ وَمِنْ بَعْدِ صَلوٰۃِ الْعِشَائِ ثَلـٰثُ عَوْرٰتٍ لَّکُمْ ﴾ (النور :۵۸)
’’صبح کی نماز سے پہلے، دوپہر کو جب تم کپڑے اُتار کر رکھ دیتے ہو اور عشا کی نماز کے بعد، یہ تین اوقات تمہارے لئے بے حجابی کے ہوتے ہیں ۔‘‘
اس کے علاوہ فقہاے اسلام نے متعدد احکام میں اس قاعدہ کو ملحوظ رکھا ہے، مثلاً بارش کے دوران کپڑوں پر پڑنے والے کیچڑ سے کپڑوں پر ناپاک ہونے کا حکم اس لئے نہیں لگایا کہ اس میں مشکل پیدا ہوجاتی۔اسی طرح ایک روایت میں آتا ہے کہ خواتین نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم (لمبی چادورں میں )ناپاک اور گندی جگہ سے گزر کرآتی ہیں تو کیااس سے ہماری زمین پر گھسٹی چادریں ناپاک ہوجاتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’کیا گندی جگہ سے گزرنے کے بعد تم صاف جگہ سے نہیں گزرتیں ؟‘‘