کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 8
اور یہی وہ رویہ ہے جس کی نشاندہی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں کی ہے : ﴿فَذَکِّرْ إنَّمَا أَنْتَ مُذَکِّرْ لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ﴾ (الغاشیۃ :۲۰، ۲۱) نصیحت کرتے ہوئے بھی ہمارا رویہ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ آدمی دوسرے پرمسلط ہوجائے اورقابوس کی طرح چھا جائے۔یعنی نصیحت کرتے وقت خوف و ہراس کی فضا قائم نہ کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ رفق، غلو و شدت سے گریز اور آسانی شریعت ِاسلامیہ کا عمومی مزاج ہے اور اسلامی تعلیمات کا حسن اسی وصف ِ’رفق‘ سے وابستہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (( إن الرفق لا یکون في شییٔ إلا زانہ ولا ینزع من شییٔ إلاشانہ)) ’’جسچیزمیں بھی نرمی کا رویہ کارفرما ہو ،وہ چیز حسین بن جاتی ہے اور جو چیزاس وصف ِ رفق سے محروم ہو جائے ، وہ چیز بدنما ہوجاتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم :۲۵۹۴) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ آسانی کے رویہ کو پسند کیا ہے ،ایک حدیث میں میں آتا ہے : (( ما خُیِّر النبي صلی اللہ علیہ وسلم بین شیئین إلا أخذ أیسرہما ما لم یکن إثما)) ’’جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دو چیزوں میں سے ایک کا اختیار دیاجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان میں سے آسان تر کو اختیار کرتے۔‘‘ (صحیح بخاری:۳۵۶۰) چنانچہ ایک مربی،عالم اور مفتی کا یہ بنیادی وظیفہ ہے کہ وہ اس صفت سے متصف ہو۔ اس کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز ہی ہمارے لئے اُسوہ ہے ،دیکھئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلہ میں کس قدر حکمت اور دھیما انداز اختیار کرتے ہیں : ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے ایک بیٹے عمر بن ابی سلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر پرورش تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھاتے جب کہ ابھی بچے تھے۔ ایک دفعہ کھانا کھاتے ہوئے سالن کے برتن میں ادھر ادھر ہاتھ مار رہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو اسے فوراً روکا نہیں ،بلکہ پہلے (( أدنُ مني یا بُنَّي)) ’’اے میرے پیارے بیٹے! میرے قریب آؤ۔‘‘ کہہ کر اس کے ساتھ محبت و اُنس کااظہا رکیا اور پھر فرمایا کہ دیکھو کھانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے سامنے سے کھائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور موقع پر اس کی مصلحت یہ بتائی : (( إن البرکۃ تنزل في وسط الطعام فکلوا من حافاتہ ولا تأکلوا من وسطہ)) (مستدرک حاکم:۴/۱۲۹) ’’ برکت کھانے کے درمیان میں اُترتی ہے ، لہٰذا پہلے تم