کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 7
شدت، تلخی اور سختی ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہادی اختلافات اورغیروں کی تہذیب کی نقالی کے علاوہ عام اجتماعی معاملات میں بھی شدت، غلو اور سختی کو سخت ناپسند کیاہے اور شدت کے رویہ پر سخت وعید سنائی ہے۔
جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کفار کے ظلم و ستم کی شکایت کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار کے خلاف بددعا کی درخواست کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے:
’’مجھے بددعائیں اور لعن طعن کرنے والا نہیں بلکہ رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔‘‘
البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدت اور انتہا پسندی اس قدر ناپسند تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت رویہ رکھنے والوں کے خلاف ان کا نام لیے بغیران الفاظ میں بددعا کی ہے : (( اللھم من ولی من أمر أمتي شیئا فشق علیھم،فاشقق علیہ ومن ولی من أمر أمتي شیئا فرَفق بھم فارفق بہ)) (صحیح مسلم:۱۸۲۸)
’’اے اللہ! جو شخص میری اُمت کے کسی اجتماعی معاملہ کا ذمہ دارہو ،پھر وہ ان پر سخت رویہ رکھے تو اے اللہ !تو اس پر سخت ہوجا اور جس کا رویہ نرم ہو، تو اس پر نرم ہوجا۔‘‘
چنانچہ جو شخص اجتہادی اختلافات اور باہمی اجتماعی معاملات میں نرمی و ملائمت اور لطافت وبردباری کو اختیارکرتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جہنم سے آزادی کی اور جنت کی نوید سنائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (( حرم علی النار کل ھین لین سھل من الناس)) (مسنداحمد:۱/۴۱۵)
’’اس شخص پر جہنم حرام کردی گئی ہے جو نرم خو ہو اور لوگوں کے لئے اس کے ساتھ معاملہ کرنا آسان ہو۔نیز اس کا رویہ لوگوں کے ساتھ قربت کا ہو۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤمن کا رویہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’المؤمن غِرُّ کریم والفاجر خِبٌّ لئیم ‘‘ (جامع ترمذی :۱۹۶۶ ’صحیح‘)
’’مؤمن روشن دماغ(نرم خو) اور سخی دل ہوتا ہے جب کہ فاسق وفاجر تنگ ظرف اور کمینہ ہوتا ہے۔‘‘
حافظ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ نے التمہید میں المؤمن سہل کے الفاظ بھی نقل کئے ہیں ۔